کشمیر … مسلم طلبہ کا میرٹ بھی برداشت نہیں
ممتا بنرجی … بی جے پی کو بنگال شیرنی کی للکار
رشیدالدین
مسلمانوں سے فرقہ پرستوں کی نفرت کوئی نئی بات نہیں لیکن اب مسلمانوں کی صلاحیت اور قابلیت بھی کھٹک رہی ہے ۔ نفرتی عناصر ملک کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو پسماندہ دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کے وسائل پر ان کی حصہ داری کا کوئی دعویٰ باقی نہ رہے ۔ مسلمان جو ملک میں مکان دار ہیں، انہیں کرایہ دار بنانے کی منصوبہ بندی پر منظم انداز میں عمل کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ 10 برسوں میں الگ الگ عنوانات سے مسلمانوں کو نشانہ بناکر حوصلے پست کرنے کا کام کیا گیا۔ کبھی بیف تو کبھی لو جہاد ، کبھی اذاں تو کبھی نماز، کبھی سوریا نمسکار تو کبھی وندے ماترم ، کبھی کفریہ نعرے ۔ الغرض مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس پیدا کیا گیا۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیوں کے ذریعہ مساجد ، درگاہوں اور دینی مدارس کے علاوہ مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کو در انداز قرار دیتے ہوئے فہرست رائے دہندگان سے ناموں کو حذف کیا گیا تاکہ رائے دہی کے حق سے محروم کیا جائے ۔ سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ عہدوں پر امتیازی سلوک کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اقلیتوں کے قائم کردہ عصری تعلیم کے اداروں اور یونیورسٹیز کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کرنا ہندوتوا طاقتوں کا تازہ ترین ایجنڈہ ہے ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بری نظریں ہیں۔ اترپردیش میں اعظم خاں کی قائم کردہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو تباہ کردیا گیا اور الفلاح یونیورسٹی بھی زد میں آچکی ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی اداروں سے دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے تاکہ یونیورسٹیز سے اہل اور باصلاحیت نوجوان پیدا نہ ہولیکن بات مسلم دشمنی سے بڑھ کر صلاحیت سے دشمنی تک پہنچ چکی ہے۔ سرکاری یونیورسٹیز میں میرٹ کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کے داخلے برداشت نہیں۔ جموں و کشمیر کی ویشنوی دیوی یونیورسٹی کے میڈیکل کورسس میں مسلم طلبہ کے داخلوں پر بی جے پی اور سنگھ پریوار آگ بگولہ ہیں۔ مسلم طلبہ کو داخلوں سے محروم کرنے کیلئے ایجی ٹیشن کی دھمکی دی گئی ۔ ویشنو دیوی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس کے تحت پہلے تعلیمی سال 50 میڈیکل نشستوں پر داخلے دیئے گئے۔ کونسلنگ میں نیٹ امتحان کے رینک کی بنیاد پر 42 مسلم طلبہ کو داخلہ ملا۔ 50 میں 42 نشستوں پر مسلم طلبہ کے داخلوں نے جموں و کشمیر میں تنازعہ کھڑا کردیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم طلبہ کو داخلے کسی مہربانی ، احسان یا رعایت کی بنیاد پر دیئے گئے ہوں بلکہ آل انڈیا رینک کی بنیاد پر کونسلنگ کے ذریعہ یہ نشستیں الاٹ کی گئیں۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں نے میرٹ اور رینک کو مذہب اور نفرت سے جوڑ دیا ہے ۔ کشمیر اسمبلی میں بی جے پی قائد اپوزیشن سنیل شرما کا کہنا ہے کہ ویشنوی دیوی کے نام اور ہندو یاتریوں کے ڈونیشن سے چلنے والی یونیورسٹی کی نشستوں پر صرف اُن طلبہ کو داخلہ کا حق ہے جو ویشنوی دیوی میں آستھا رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو داخلہ کا حق نہیں۔ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے نمائندگی کرتے ہوئے داخلے منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی ۔ یونیورسٹی کو ہندو یونیورسٹی کا نام دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے ۔ ویشنوی دیوی کے نام کی آڑ میں یہ تاثر دیا گیا کہ یونیورسٹی ہندو ٹرسٹ کے اخراجات پر چلتی ہے جبکہ حقیقت بی جے پی قائدین کے دعوؤں کے برخلاف ہے۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں 1999 میں ویشنوی دیوی یونیورسٹی کے قیام کے حق میں قانون سازی کی گئی جوکہ ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔ اسمبلی میں مسلم ارکان کی اکثریت کے باوجود ویشنوی دیوی کے نام پر یونیورسٹی کے قیام کو منظوری مسلمانوں کی فراخدلی اور مذہبی رواداری کا ثبوت ہے ۔ یونیورسٹی کے تحت جاریہ سال انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیس کا قیام عمل میں آیا اور پہلے سال ایم بی بی ایس کی 50 نشستیں الاٹ کی گئیں۔ چونکہ یہ اسٹیٹ یونیورسٹی ہے ، لہذا خالص میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیئے گئے ۔ یہ حقیقت بھی چھپائی جارہی ہے کہ یونیورسٹی کو ہر سال حکومت کی جانب سے گرانٹ منظور کی جاتی ہے ۔ 2017-18 سے آج تک جموں و کشمیر حکومت نے یونیورسٹی کو 121 کروڑ بطور گرانٹ جاری کئے ہیں۔ 2017-18 میں 10 لاکھ روپئے ، 2018-19 میں 50 لاکھ اور 2019-20 میں 5 کروڑ کی گرانٹ منظور کی گئی ۔ ہر سال گرانٹ میں اضافہ کیا گیا اور 2024-25 میں 24 کروڑ جاری کئے گئے۔ یونیورسٹی کے قیام کے وقت میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کا فیصلہ کیا گیا لیکن پہلے سال ہی 42 نشستوں پر مسلم طلبہ کے داخلوں سے نفرت کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا جو ویشنوی دیوی شراین بورڈ کے صدرنشین بھی ہیں، وہ حقیقت حال سے واقف ہیں اس لئے خاموش ہیں ۔ نفرت کا زہر تعلیمی اداروں تک پھیلانے والے بھول رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ کوئی بھی ادارہ تمام مذہب کے ماننے والوں کیلئے ہوتا ہے۔ میرٹ کو مذہب سے جوڑنا دستور اور قانون کی توہین ہے۔ بی جے پی کو دراصل ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست برداشت نہیں تھی، لہذا خصوصی موقف ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اگر مسلمانوں کے داخلے قبول نہیں تو یونیورسٹی کو اقلیتی موقف دیا جائے تاکہ وادی میں اکثریتی طلبہ کو داخلہ مل سکے۔ کشمیر کے راجوری میں بھی یونیورسٹی ہے جہاں تمام مذاہب کے طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیئے جاتے ہیں۔ سماج کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا بی جے پی کا سیاسی ایجنڈہ ہے اور کشمیر میں داخلوں کے نام پر نفرت کی سیاست کا مقصد وادی کی پرامن فضاء کو زہر آلود بنانا ہے۔ تعلیمی اداروں خاص طور پر میڈیکل تعلیم کو فرقہ پرستی کا رنگ دینا سماج کی بد خدمتی ہوگی۔ پیش طب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور مریض کے لئے ڈاکٹر کا درجہ عظیم ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر کسی مریض کے علاج سے قبل اس کا مذہب نہیں دیکھتا اور نہ مریض اپنے علاج سے قبل ڈاکٹر کا مذہب معلوم کرتے ہیں۔ مقصد پیشوں کو فرقہ وارانہ سیاست سے جوڑنے والوں کو سماج سبق سکھائے گا۔
بنگال کی شیرنی ممتا بنرجی نے بی جے پی کو للکارا ہے۔ بہار میں ووٹ چوری اور ووٹ خریدی کے ذریعہ کامیابی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے بنگال کو بی جے پی کا اگلا نشانہ قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے بنگال کے بشمول 12 ریاستوں میں فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی (SIR) کا آغاز کردیا ہے۔ انتخابات سے عین قبل بہار کی طرح بنگال میں SIR سے بی جے پی کے ناپاک عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ الیکشن کمیشن جو ایک دستوری ادارہ ہے، وہ عملاً بھگوا کمیشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دینا تک کمیشن کو گوارا نہیں کیونکہ وہ مرکزی حکومت کے اشارہ پر کام کر رہا ہے۔ بنگال ، کیرالا اور ٹاملناڈو میں غیر بی جے پی حکومتوں کا خاتمہ کرنا مودی۔امیت شاہ کی اولین ترجیح ہے۔ بہار کے نتیجہ کو دیکھنے کے بعد ممتا بنرجی نے فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے خلاف مہم سڑکوں پر چھیڑ دی ہے ۔ انہوں نے کولکتہ میں الیکشن کمیشن کے دفتر کا آدھی رات کو گھیراؤ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ الیکشن کمیشن اور بی جے پی کے منصوبہ کے خلاف چوکس ہیں۔ ممتا بنرجی نے دھمکی دی ہے کہ اگر بنگال میں ایک بھی حقیقی ووٹر کے نام کو فہرست سے خارج کیا گیا تو سارے ملک میں بی جے پی کی بنیادوں کو ہلادیں گی۔ انہوں نے بی جے پی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ بنگال میں بی جے پی کا راستہ آسان نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن بی جے پی کے اشارہ پر بنگال میں بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کے نام خارج کرنے کی تیاری کرچکا ہے ۔ اگر الیکشن کمیشن کو من مانی کی اجازت دی گئی تو بنگال کا نتیجہ بھی بہار کی طرح بی جے پی کے حق میں یکطرفہ رہے گا۔ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں میں ممتا بنرجی وہ واحد چہرہ ہیں ، جنہیں شکست دینا بی جے پی کے بس کی بات نہیں۔ مغربی بنگال میں بائیں بازو جماعتوں کے غلبہ کا خاتمہ کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے اقتدار سنبھالا ہے اور بنگال کے رائے دہندے ممتا بنرجی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ممتا بنرجی کی للکار سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر مرکزی حکومت نے ترنمول کانگریس کے تقریباً 12 قائدین کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو متحرک کردیا ہے۔ ترنمول کانگریس کے قائدین کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمات میں تیزی پیدا کرتے ہوئے سرکردہ قائدین کو جیل بھیجنے کی تیاری ہے ۔ اطلاعات کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ کے دفاتر میں ترنمول قائدین کے خلاف فائلوں کی تیاری کا کام تیز ہوچکا ہے۔ ممتا بنرجی ایک طرف SIR تو دوسری طرف ای ڈی کارروائیوں سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ اگر عوام ساتھ رہیں تو پھر بی جے پی کو شکست دینا کوئی مشکل نہیں۔ عمران پرتاپ گڑھی نے کیا خوب کہا ہے ؎
پہلے تعلیم سے تم موڑ دیئے جاؤگے
پھر کسی جرم سے تم جوڑ دیئے جاؤگے