پہلے ہی کی طرح حالات کا سامنا کرنے تیار رہیں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
پارلیمنٹ کے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کا مشاہدہ سارے ملک کے لوگوں نے کیا ۔ صدر کے خطبہ پر تحریک تشکر کے دوران راہول گاندھی کی تقریر اور پھر وزیراعظم کی جوابی تقریر فی الوقت موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ اجلاس کے پہلے باقاعدہ کاروباری دنوں نے بظاہر میرے شکوک و شبہات کی تصدیق کردی ۔ جہاں تک مسٹر نریندر مودی کی حکومت کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ( ان کی پہلی اور دوسری معیاد میں جو حالات تھے ، جس طرح کے اُن کے تیور اور اشارہ کنائیے تھے سب کے سب ویسے ہی ہیں ) میرا ایک مضمون انڈین ایکسپریس کی اشاعت 30 جون 2024 ء اور روزنامہ سیاست میں شائع ہوچکا ہے جس کا عنوان ’’کیا بدلا ؟ بظاہر کچھ نہیں بدلا ‘‘ تھا ۔ یہ واضح ہے کہ مسٹر مودی نے سختی سے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ماقبل انتخابات جو وعدے کئے گئے ، جو اُن کی پالیسیاں تھیں ، پروگرامس تھے ، انداز کارکردگی ، طرزِ عمل ، انتقامی روش تھی ان سب کا دفاع کیا جائے گا ۔ ان تمام کا اعادہ کیا جائے گا اور ان چیزوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل نہ کرسکی بلکہ اُسے دوسری جماعتوں پر انحصار کرنا پڑا ۔ المیہ یہ ہے کہ مسٹر مودی کی یہ روش پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی غالب دکھائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی یہ روایت رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان اتفاق رائے سے چلائے جاتے ہیں اکثریت کی حکمرانی سے نہیں چلائے جاتے ۔ ایک معمولی سوال جیسا کہ آیا ہم آج ظہرانہ کے وقفہ سے گریز کریں اور ایوان میں آج کی کارروائی جاری رکھیں اسے پریسائیڈنگ آفیسر کی مرضی و منشا سے نہیں بلکہ اتفاق رائے سے حل کرنا ہوگا ۔ اس کے باوجود مثال کے طورپر دو پریسائیڈنگ آفیسروں نے نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (NTA) کے امتحانات سے متعلق بہت بڑے اسکینڈل پر بات کرنے کیلئے بے شمار ارکان پارلیمان کی تائید و حمایت کردہ تحریک کو مسترد کردیا جس سے افسوس کے گزشتہ 5 برسوں کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔ پچھلے 5 برسوں میں اکثریت کے زعم میں مبتلا حکومت نے اپوزیشن کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بولنے نہیں دیا ، اُنھیں بولنے، کچھ کہنے، حکومت کو اس کی ناکامیوں کا احساس دلانے سے روک دیا ۔
مسٹر مودی کے ارادے : پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہوئی پہلی بجٹ اور پارلیمنٹ کے باہر لئے گئے فیصلوں نے حکومت کی نیت ، اراردوں اور اس کی سمت کو واضح کردیا یعنی یہ ملک صرف ایک فرد کے حکم ، اُس کے فرمان پر چلے گا اور اسی رجحان کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ حکومت کی تائید و حمایت کرنے والی دو کلیدی حلیف جماعتوں ( تلگودیشم اور جنتادل یو ) کے ساتھ ساتھ اس کی دوسری چھوٹی چھوٹی حلیف جماعتوں کا کسی بھی فیصلہ میں کوئی کردار نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ وہ حکمراں بنچس پر بیٹھ کر تالیاں بجائیں، حکومت کی تائید و حمایت میں آوازیں بلند کریں ۔ مسٹر مودی اپنے ہی وزراء یا لوک سبھا و راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈروں کو کوئی جگہ ، کوئی موقع نہیں دیں گے ۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے بھی بی جے پی نے 240 اور اس کی زیرقیادت این ڈی اے نے جملہ 292 نشستیں حاصل کی ہیں اس کے باوجود مسٹر مودی اپنی پرانی روش پر گامزن ہیں ، اُسی طرح کی طرز حکمرانی اختیار کررہے ہیں ۔ اب یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کا کیا ہوگا ؟ اس معاملہ میں کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کیلئے چار دن بہت کم ہوتے ہیں لیکن ابتدائی اشارے موجود ہیں اور ان اشاروں کو میں ذیل میں پیش کررہا ہوں ۔
< مہاراشٹرا ، ہریانہ اور جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے این ڈی اے ؍ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ خوفزدہ ہیںکیونکہ ان ریاستوں میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور اُنھیں اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی یا اتحاد کے امکانی بدترین مظاہرہ کا خوف کھائے جارہا ہے ۔ مہاراشٹرا کی مہا یوتی حکومت سست روی کا شکار ہے جبکہ ہریانہ میں بی جے پی نے حالیہ لوک سبھا انتخابات میں خراب مظاہرہ کیا ( ریاست ہریانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں میں سے کانگریس نے 5 اور بی جے پی نے 5 پر کامیابی حاصل کی ) جھارکھنڈ کا جہاں تک تعلق ہے حال ہی میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے مسٹر ہیمنت سورین کو ضمانت منظور کی اور انھوں نے دوبارہ ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف بھی لے لیا ۔ اسی طرح مہاراشٹرا ، ہریانہ اور جھارکھنڈ میں INDIA بلاک کا موقف مضبوط ہوا ہے اور اُمید ہے کہ ان ریاستوں میں انڈیا بلاک کی لہر چلے گی ۔ ویسے بھی ہریانہ میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔ اپوزیشن نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہریانہ میں بی جے پی حکومت اکثریت سے محروم ہوگئی ہے ۔
< لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے ؍ بی جے پی کو پنجاب، راجستھان ، اُترپردیش ، مغربی بنگال ، میگھالیہ ، منی پور ، ناگالینڈ اور کرناٹک میں زبردست جھٹکے لگے ۔ اس کے کئی اہم اور طاقتور سمجھے جانے والے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن شاید یہ بی جے پی کی خوش قسمتی ہے کہ ان ریاستوں میں سے کسی بھی ریاست میں فوری طورپر انتخابات ہونے والے نہیں ہے ۔
< این ڈی اے ؍ بی جے پی نے کیرالا اور تاملناڈو میں بدترین مظاہرہ کیا ۔
< دہلی ، ہماچل پردیش ، اُتراکھنڈ ، بہار ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، آسام ، اوڈیشہ ، آندھراپردیش ، تلنگانہ اور گجرات کے این ڈی اے ؍ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کے چہروں پر مسکراہٹیں ہوں گی لیکن وہ مخلوط حکومت کا ٹیگ لگنے اور اس اتحاد کے طویل عرصہ تک برقرار رہنے کے بارے میں غیریقینی کا شکار ہیں۔
بلند چوٹی کو سر کرنا ہے : بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ دعوے کرے کہ وہ ناقابل تسخیر پارٹی ، ناقابل شکست پارٹی ہے اُسے ایک بہت بڑا پہاڑ سر کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح کانگریس کو بھی آگے بڑھنے کیلئے ایک بلند چوٹی سر کرنی پڑے گی اور حقیقت میں ایک بلند و بالا پہاڑ کو سر کرنا پڑے گا ۔ میں یہاں یہ نکتہ پیش کرسکتا ہوں کہ کانگریس نے 9 ریاستوں میں 99+2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور دیگر 9 ریاستوں کی 170 نشستوں میں سے اسے صرف 4 حلقوں میں کامیابی ملی اور کانگریس نے 215 نشستوں پر مقابلہ نہیں کیا ( اس کی اتحادی جماعتوں نے 215 نشستوں پر مقابلہ کیا) ۔
ایک بات ضرور ہے کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد نے ایک مضبوط اپوزیشن قائم کرلی ہے اس کے باوجود وہ حکومت کو شکست دینے کے موقف میں نہیں ہیں ۔ فی الوقت حکومت کی چابیاں تلگودیشم ( 16 ارکان پارلیمان ) اور جنتادل (یو) (12 ارکان پارلیمان ) کے ہاتھوں میں ہیں ۔ دونوں جماعتیں بی جے پی حکومت کو تائید و حمایت کے عوض بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی ۔ دونوں جماعتیں بجٹ کا انتظار کریں گی ۔ دونوں جماعتیں آندھراپردیش اور بہار کیلئے مخصوص زمرہ ؍ خصوصی موقف کا مطالبہ کریں گی اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی ان ریاستوں کو خصوصی موقف عطا نہیں کریں گے اور دونوں جماعتیں مہاراشٹرا ، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج کا انتظار کریں گی ۔ ان ریاستوں میں اندرون چند ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
پالیسیوں سے متعلق قیاس آرائیاں : غیریقینی سیاسی صورتحال کا مطلب اقتصادی پالیسیوں کے تئیں کیا ہوتا ہے ؟ اس بارے میں راقم الحروف کی کچھ قیاس آرائیاں ہیں ۔ .1 حکومت مسلسل انکار اور تردید کے موڈ میں ہوگی ۔ حکومت بڑے پیمانے پر ملک میں پائی جانے والی بیروزگاری ، آسمان کو چھوتی مہنگائی ( خاص طورپر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ) نان ریگولر اور جزوقتی ورکروں کی اُجرت ؍ آمدنی ، غربت ( آبادی کا 20 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہا ہے ) اور ملک میں پائی جانے والی عدم مساوات سے انکار کرے گی لحاظ موجودہ معاشی پالیسیوں میں کسی اہم تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔
.2 حکومت بنیادی سہولتوں اور Vanity Projects میں سرمایہ مشغول کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی جبکہ بنیادی سہولتوں پر اقتصادی فوائد بھی ہیں۔ نجی سرمایہ کاری کی عدم موجودگی میں شرح نمو اوسط رہے گی ۔ مشکوک اعداد و شمار سے اس میں اضافہ ہوگا ۔
.3 حکومت جنوبی کوریائے CHAEBOL- LED نمو کے ماڈل پر عمل کا سلسلہ جاری رکھے گی ۔ مونوپولیس اور Aligopolici’s پروان چڑھیں گے ۔
.4 ایک معمر لیڈر کے تحت حکومت کی تیسری معیاد میں ایسی صلاحیتوں کو راغب نہیں کرپائے گی جو تعلیم ، نگہداشت ، صحت ، ماحولیات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لاسکتا ہے۔