پہلے یہ طئے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے

,

   

7 ون نیشن ون الیکشن … اقتدار کیلئے نیا شوشہ
7 بچھڑے سے محبت اور انسانوں سے نفرت کیوں؟
7 مودی کے100 دن … جشن نہیں ماتم!

رشیدالدین
’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ ملک میں ان دنوں اس نعرہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی اور قانونی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ آیا ملک میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات ممکن ہیں۔ دستور اور قانون کے ماہر بھلے ہی کچھ کہہ لیں لیکن نریندر مودی کے فیصلہ کے آگے کسی کی نہیں چلے گی۔ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کہ نعرہ کے مطابق صورتحال پر نظر ڈالیں تو ملک میں وہی کچھ ہورہا ہے جو مودی چاہتے ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی کی من مانی چلتی رہی۔ جو قانون وہ چاہتے ، اس کی منظوری حاصل کرتے رہے کیونکہ بی جے پی کو لوک سبھا میں اکثریت حاصل تھی۔ تیسری میعاد میں اکثریت سے محروم تو ہوئے لیکن حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت تشکیل دی۔ مودی شائد اسی گمان میں ہیں کہ 10 برسوں کی طرح تیسری میعاد بھی ان کی مرضی مطابق چلے گی۔ کسی بھی مخلوط حکومت کیلئے من مانی فیصلے کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لئے کہ مخلوط حکومت کے ساتھیوں کے نظریات مختلف ہوتے ہیں۔ حکومت کی تائید بیشتر پارٹیوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ مودی حکومت کے 100 دن مکمل ہوگئے اور حکومت کوئی ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں کرسکی جسے متنازعہ یا من مانی کہا جاسکے۔ وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمانی مشترکہ کمیٹی سے رجوع کرنا مودی کی من مانی کی راہ میں پہلی رکاوٹ ہے۔ امیت شاہ لاکھ دعویٰ کرلیں لیکن پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل کی منظوری آسان نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ 100 دن میں ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں 10 برسوں کی طرح بے قابو ضرور رہیں۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ماب لنچنگ ، مسلم جائیدادوں کے خلاف بلڈوزر کارروائیاں ، بیف کے نام پر حملے اور مساجد کو نشانہ بنانے کے واقعات جاری ہیں۔ مودی حکومت ان واقعات پر خاموش تماشائی بن کر بالواسطہ تائید کر رہی ہے۔ سڑکوں اور بازاروں میں ہندوتوا ایجنڈہ بھلے ہی جاری رہے لیکن حکومت کی سطح پر نفرت کے ایجنڈہ کا نفاذ آسان نہیں۔ نریندر مودی اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے بے چین ہیں اور احساس کمتری کو برتری کے طورپر دکھانا چاہتے ہیں۔ وقف ترمیمی بل کی منظوری میں ناکامی کے بعد ون نیشن ون الیکشن کا نیا شوشہ چھوڑا گیا۔ انتخابی مصارف کو کم کرنے اور حکومتوں کو متواتر 5 سال عوام کی خدمت کے نام پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات کی تجویز ہے۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی زیر قیادت کمیٹی نے ون نیشن ون الیکشن کی تائید کرتے ہوئے رپورٹ پیش کی جسے کابینہ نے منظور کرلیا ۔ پارلیمنٹ میں بل منظور ہوگا یا نہیں اس کی پرواہ کئے بغیر نریندر مودی اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ون نیشن ون الیکشن پر آئندہ پانچ برسوں میں عمل آوری کا امیت شاہ نے اعلان کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پانچ برس میں عمل آوری کرنی تھی تو پھر جموں و کشمیر اور ہریانہ میں انتخابات کیوں کرائے جارہے ہیں؟ مہاراشٹرا میں انتخابی تیاریاں کیوں ہیں؟ ظاہر ہے کہ نریندر مودی اینڈ کمپنی اچھی طرح جانتی ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے بیک وقت الیکشن ممکن نہیں، لہذا صرف ایجنڈہ کی تشہیر کے ذریعہ قوم کو حقیقی مسائل سے دور کیا جارہا ہے۔ جن ریاستوں میں گزشتہ دو برسوں کے دوران الیکشن ہوئے ، ان کا کیا ہوگا۔ اگر تمام اسمبلیوں کو تحلیل کردیا جائے تو انتخابی خرچ اور بوجھ کے ذمہ دار کون ہوں گے۔ دفعہ 370 کی برخواستگی اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کے فیصلوں کی طرح ون نیشن ون الیکشن کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ لوک سبھا میں منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت یعنی 362 ارکان کی تائید ضروری ہے جبکہ بی جے پی کے 242 ارکان ہیں۔ راجیہ سبھا میں 164 ارکان کی تائید کے علاوہ 14 ریاستوں کی تائید ضروری ہے۔ ریاستی اسمبلیوں کی میعاد ختم کرنے کیلئے دستوری ترمیم کرنی ہوگی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی نے اپنے 100 دن کی تکمیل سے عوام کی توجہ ہٹانے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ 100 دن کی ناکامیوں کی پردہ پوشی اصل مقصد ہے۔ تیسری میعاد کے 100 دن میں حکومت کا ایک بھی کام ایسا نہیں رہا جسے مودی کا کارنامہ کہا جاسکے۔ 100 دن کی تکمیل پر بی جے پی کو جشن منانے کے بجائے ماتم کرنا چاہئے کیونکہ عوام کی بھلائی کا ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے خون سے ہندوستان کی سر زمین سیراب ہورہی ہے۔ مسلمانوں کی ہلاکتوں پر مودی نے مذمت توکجا وزیراعظم کی حیثیت سے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا۔ مودی کا حقیقی چہرہ تو بہت کم ہی عوام کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے میٹھی میٹھی باتیں کی جارہی ہیں لیکن میلاد النبیؐ کے موقع پر مسلمانوں کو مبارکباد دینے کا خیال نہیں آیا۔ ملک کے چھوٹے چھوٹے علاقائی تہواروں پر مودی مبارکباد پیش کرتے ہیں لیکن میلاد النبیؐ پر شائد ان کا ٹوئیٹر اکاونٹ بند تھا۔ نریندر مودی مسلمانوں کے معاملہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے خول سے باہر نکل کر ہندوستان کے وزیراعظم کی طرح کام کریں تو کئی مسائل از خود ختم ہوجائیں گے۔
ملک میں مودی کی قیادت کو ابھارنے کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ون نیشن ون الیکشن ون لیڈر کا نعرہ لگایا ہے۔ ون نیشن اور ون الیکشن کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ملک کیلئے ون لیڈر کا تصور ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہے۔ اگر نریندر مودی کو مسلط کرنا ہی ہے تو پھر ملک میں الیکشن کی کیا ضرورت ۔ صرف ون نیشن اور ون لیڈر کا نعرہ کافی رہے گا۔ آر ایس ایس کی جانب سے نریندر مودی حکومت سے ناراضگی کے باوجود سنگھ پریوار کا ایک گوشہ جارحانہ فرقہ پرستی کے نظریہ کے تحت مودی کی تائید کر رہا ہے۔ ون نیشن ون الیکشن ملک میں چھوٹی جماعتوں کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں موجو دہ حکومتوں کو زوال سے دوچار کرنے کے مقصد سے یہ تجویز پیش کی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکتا ہے۔ اسی دوران وزیراعظم نے گزشتہ دنوں سوشیل میڈیا پر ایک بچھڑے کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیو وائرل کیا۔ گھر میں جب کوئی نیا مہمان نو مولود کی شکل میں آتا ہے تو گھر میں جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ نریندر مودی نے شادی ضرور کی لیکن ان کے گھر میں کوئی نیا مہمان نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ جب کسی کے گھر مہمان نہ آئے تو وہ انسانوں کی جگہ جانوروں کے بچوں کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے۔ نریندر مودی کے گھر میں گائے نے بچھڑے کو جنم دیا اور نریندر مودی نے خوشی سے بے قابو ہوکر بچھڑے کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیوز عوام میں وائرل کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ کس حد تک جانوروں سے محبت کرتے ہیں۔ نریندر مودی سے بہت کم لوگ واقف ہیں اور ان کے سابقہ ٹریک ریکارڈ کی بنیاد پر شائد بچھڑا بھی ان سے خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ جس وقت مودی بچھڑے کو ماں سے جدا کر رہے تھے ، ماں نے بچھڑے کو مودی سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کے پیار کرنے پر بھی بچھڑا مطمئن نہیں تھا۔ اسے اس بات کا خوف ہوگا کہ ویڈیو اور تصویر کشی کے بعد پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو۔ تصاویر کے وائرل ہونے پر عوام نے دلچسپ تبصرے کئے ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کاش نریندر مودی اپنی گھر والی کو ساتھ رکھتے تو شائد وہ بھی صاحب اولاد ہوتے اور انہیں جانوروں سے دل بہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نریندر مودی عام طور پر الیکشن سے قبل جانوروں کے ساتھ اپنی تصاویر کو وائرل کرتے ہیں۔ کبھی گھوڑے تو کبھی کتے اور کبھی گودی میڈیا کے چاٹو کار اینکرس کے ساتھ ان کی تصویریں وائرل ہوتی ہیں۔ بچھڑے کے ذریعہ مودی نے مقبولیت تو حاصل کی لیکن اس نو مولود بچھڑے کا بعد میں کیا حشر ہوا کسی کو پتہ نہیں۔ کاش نریندرمودی بچھڑے کی طرح انسانوں سے بھی محبت کرنا سیکھ لیتے ۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے ساتھ مودی نے کبھی جھوٹی ہمدردی بھی نہیں دکھائی ۔ گجرات فسادات کے بعد سے نریندر مودی نے مسلمانوں سے ہمدردی کا رویہ جیسے ترک کردیا ہو۔ سیاسی مبصرین نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک طرف ہندوستان بیف ایکسپورٹ میں دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن نریندر مودی بچھڑے سے ہمدردی کرتے ہوئے گاؤ رکھشکوں کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ کاش نریندر مودی بچھڑے کی طرح مسلمانوں سے بھی ہمدردی کرتے تو شائد ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات رونما نہ ہوتے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے موجودہ حالات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طئے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے