سید جمشید احمد بلقی
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹروں وکلا (ایڈوکیٹس)، آرکٹکٹس وغیرہ جیسے پیشہ وارانہ ماہرین مختلف شعبوں اور مقامات پر خدمات فراہم کرتے ہیں ایسے میں انہیں انکم ٹیکس قانون 1961 کے مطابق اپنے اکاؤنٹس بکس کو مناسب طور پر تیار کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اکثر پیشہ وارانہ ماہرین تن تنہا ہر کام انجام دیتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ ایک طرح سے
One Man Army
ہوتے ہیں اور ان کا ایک مددگار یا اسسٹنٹ ہوتا ہے جو ان کی پریکٹس اور کام کاج میں اعانت کرتا ہے اور اسی سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ان پیشہ وارانہ ماہرین کا حساب کتاب رکھے گا اور اکاؤنٹس بکس کا نظم چلائے گا۔ یہ ماہرین یہ تصور کرتے ہیں کہ حساب کتاب رکھنا یا اکاؤنٹس بک تیار کرنا ایک کارِگراں ہے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیشہ وارانہ ماہرین اکاؤنٹنٹ کی خدمات حاصل کئے بناء اور اکاؤنٹنٹ کا خرچ برداشت کئے بغیر کیسے انکم ٹیکس لوازمات کی تکمیل کریں گے؟
انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کے مطابق دفعہ
44ADA
کے تحت
Presumptive) (Taxation Scheme(PTC)
یہ اسکیم پیشہ وارانہ ماہرین کو ایک اندازاً یا تخمیناً آمدنی یا فائدہ پر اپنے ٹیکس کا حساب لگانے کی اجازت دیتی ہے۔ پی ٹی ایس کا دراصل مخصوص پیشہ وارانہ ماہرین پر اطلاق ہوتا ہے جو مشاورتی
Consultancy
خدمات فراہم کرتے ہیں اور ایک مالی سال میں ان کی مجموعی وصولیات
Gross Reciepts
پچاس لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ انکم ٹیکس قانون 1961 کی دفعہ
44ADA
کے مطابق ایک مالی سال میں مجموعی وصولیات کے 50 فیصد حصہ کو خود بخود استثنیٰ حاصل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حقیقی مصارف 50 فیصد سے کم کیوں نہ ہوں۔ یہاں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان پیشہ وارانہ ماہرین کے مصارف کا زیادہ تر حصہ آفس کے کرایہ، سفر اور ارکان عملہ کی تنخواہوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے اور ان تمام مصارف کو یکجا بھی کرلیا جائے تو وہ مجموعی وصولیات کے 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن سیکشن
44ADA،
مجموعی وصولیات میں سے 50 فیصد حصہ تک کے لئے استثنیٰ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور جو پیشہ وارانہ ماہرین کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ ان کے مزید فائدے یہ ہیں کہ انہیں اکاؤنٹ بکس رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ ہی ٹیکس آڈٹ درکار ہوتا ہے۔ اس عمل کو واضح کرنے کے لئے ہمیں ایک مثال پیش کرنے دیجئے۔ اگر کسی شخص کی آمدنی 45 لاکھ روپے ہے اور اس میں سے 15 لاکھ روپے کے مصارف ہوئے تب اس کا نقد فائدہ 30 لاکھ روپے رہ جائے گا لیکن وہ شخص
Presumptive Taxation Scheme
(پی ٹی ایس) کو اپنائے گا تب اس کے مصارف 22.5 لاکھ روپے سمجھے جائیں گے اور اس کا نقد فائدہ 22.5 لاکھ روپے تک محدود ہو جائے گا۔ اس طرح اس کی آمدنی پر انکم ٹیکس 2.25 لاکھ روپیوں تک محدود ہو جائے گا۔
22.5 لاکھ روپے کے نقد فائدہ جس کا مذکورہ پیشہ وارانہ ماہرین کی آمدنی میں سے حساب لگایا گیا تھا وہ ساری منہا کردہ رقم پر انکم ٹیکس قانون کی دفعہ 80 کے تحت دعویٰ کرنے کا اہل ہوگا۔ ساتھ ہی اس پر 2.5 لاکھ کے بنیادی استثنیٰ اور Tax Slabs بھی قابل اطلاق ہوں گے۔
جہاں تک پیشہ وارانہ ماہرین کا سوال ہے وہ سیکشن 1941 کے تحت
TDS
بھرنے کے ذمہ دار ہیں جب ان کے ہر
Client
کی جانب سے ادا کردہ رقم کی حد 30000 سے بڑھ جاتی ہو جس کو 10 فیصد کی شرح سے تخفیف کئے جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی رقم مالی سال کے لئے قابل ادا انکم ٹیکس کے لئے
Adjust
کرلی جائے گی لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہیکہ مذکورہ فوائد کے اس وقت دعوے نہیں کئے جاسکتے اگر آپ کا
TDS
سیکشن 1928 کے تحت منہا کیا جائے جیسے کہ یہ تنخواہوں پر
TDS
سے تعلق رکھتا ہے جو کل وقتی ملازمین کو ادا کی جاتی ہیں۔ جہاں تک سیکشن 1941 کا کنسلٹنسی کی بنیاد پر پیشہ وارانہ خدمات کی ادائیگی سے تعلق ہے ایسے میں پیشہ وارانہ ماہرین خاص طور پر ڈاکٹرس اس بارے میں محتاط رہیں کہ
TDS
صرف سیکشن 1941 کے تحت ہی بھرا جاتا ہے۔
لوگ اکثر یہی کہتے ہیں کہ ہندوستان کا انکم ٹیکس قانون بڑا سخت ہے اور اس کی تکمیل بہت مشکل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ اس میں آپ کے لئے کئی فوائد ہیں ضرورت اس بات کی ہیکہ عوام کو اس بارے میں بتایا جائے ان میں شعور بیدار کیا جائے۔