چار دہوں پر محیط مثبت خدماتحضرت سید علی اکبر نظام الدین حسینی صابری بحیثیت امیر جامعہ نظامیہ

   

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
ابھی کھل جاؤں تو سب راز حقیقت کھل جائے
نامۂ حُبِ حقیقی کا لفافہ میں ہوں
کسی بھی ادارہ کی ترقی اور Growth کا دارومدار ادارہ میں قائم امن و سکون پر ہوتا ہے۔ اگر ادارہ میں امن و سکون کی کیفیت نہ ہو بلکہ باہمی رسہ کشی، کشمکش اور تنازعات کا دور دورہ ہو تو وہ ادارہ کما حقہ ترقی کی راہ پر گامز ن نہیں ہوسکتا۔ امن و سکون ادارہ کی ترقی کے بنیادی عوامل میں سے ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس ادارہ کے ارباب مجاز کے پیش نظر ادارہ کی ترقی و استحکام ہی مشترکہ ہدف ہو اور وہ شخصی مفادات سے بالاتر ہوکر جذبہ خلوص کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے ہوں۔ علاوہ ازیں ادارہ کی ترقی میں ارباب مجاز کے مابین ذہنی ہم آہنگی ، باہمی تال میل اور ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ مزید برآں ادارہ کی کامیابی کسی ایک شخص پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کے ثمر آور نتائج اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب ارباب مجاز کی کامیاب منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کے ساتھ مختلف شعبوں میں متعینہ عملہ کی شبانہ روز جدوجہد شریک کاز ہوتی ہے۔ تاہم Vision کو عملی جامہ پہنانے میں ارباب مجاز اور عملہ کو جوڑے رکھنے میں کسی مرکزی شخصیت کے قائدانہ کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
واضح باد کہ کہنہ مشق و تجربہ کار عہدیداروں کی نگرانی میں نئی نسل کا انتظامی اُمور اور تدریسی نظم و نسق سے آراستہ ہوجانا ادارہ کے روشن مستقبل کا ضامن ہوتا ہے نیز Power کا مختلف عہدیداروں میں منقسم رہنا صحتمند ادارہ کے Proper Function کیلئے ضروری ہوتا ہے، اگر Power کسی ایک عہدہ میں محدود یا کسی ایک عہدیدار کے ساتھ مختص ہوجائے تو نفع کم اور نقصانات زیادہ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
بناء بریں حضرت سید علی اکبر نظام الدین حسینی صابری کے دور امارت کا تجزیہ مندرجہ بالا تمہید کے بنیادی نقاط کی روشنی میں کیا جائے تو تقریباً ہر محاذ پر آپ کامیاب امیر معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ آپ کا دور امارت جامعہ نظامیہ کے لئے ایک نعمت ثابت ہوا جس میں کبھی بھی سابقہ ادوار کی طرح باہمی رسہ کشی اور تنازعات دیکھنے میں نہیں آئے نیز آپ کے اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے درمیان ذہنی موافقت، پاس و لحاظ، نازک وقت میں ایک دوسرے کی تائید و حمایت مثالی رہی جو کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک عظیم نمونہ ہے۔ البتہ انتظامیہ اور تدریسی نظم و نسق میں نئی نسل کا تیار نہ ہونا ادارہ کے حق میں خوش آئند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ آنے والی نسل، بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادارہ کو باہمی رسہ کشی اور تنازعات سے دور رکھے گی۔
حضرت سید علی اکبر نظام الدین حسینی صابری سجادہ نشین درگاہ شاہ خاموش ؒ کے دور امارت میں جامعہ کی متعدد جائیدادوں سے قبضہ کو ختم کیا گیا، موقوفہ جائیدادوں میں اضافہ ہوا، نظامیہ کے قرب و جوار کی جائیدادوں کو خریدا گیا۔ گن فاؤنڈری کی جائیداد پر کمرشیل کامپلکس تعمیر ہوا جس سے جامعہ کے مالیہ میں خاطر خواہ استحکام آیا۔ آج چرم قربانی کے اہم ذریعہ آمدنی کے ختم ہونے کے باوجود جامعہ کا مالیہ مستحکم ہے۔
آپ 1984ء میں پہلی مرتبہ رکن انتظامی مقرر ہوئے اور 1985ء میں آپ معتمد منتخب ہوئے، اور آپ کے معتمدی کے دور میں جامعہ کی اسنادات کی مسلمہ حیثیت عثمانیہ یونیورسٹی نے منسوخ کی تھی۔ آپ نے اپنے شخصی اثرورسوخ کا استعمال کیا اور اس وقت کے کانگریس منسٹر پی شیوشنکر سے رابطہ کیا جنہوں نے آپ کو فی الفور دہلی بلایا اور متعلقہ ادارہ کو حقائق سے آشکار کیا۔ دہلی سے واپسی پر عثمانیہ یونیورسٹی سے نظامیہ کی اسنادات کی مسلمہ حیثیت بحال ہوگئی۔ نیز آپ کے دور امارت میں حالیہ عرصے میں جب دوبارہ مسلمہ حیثیت ختم ہوئی تو آپ ہی کی کاوشوں سے نظامیہ کے نصاب میں تبدیلی لاکر فاضل کو تین سال میں تقسیم کیا گیا اور مسلسل پیروی کی گئی تاآنکہ مسلمہ حیثیت بحال ہوگئی۔ مزید برآں ملازمین کو دوران ملازمت پانچ سال کی رخصت کا استحقاق آپ ہی کی توجہ کی مرہون منت ہے۔ آپ کے دور امارت کا سب سے نمایاں کارنامہ 125 سالہ جشن تاسیس کا کامیاب انصرام ہے جس کے روح رواں حضرت مولانامفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ رہے، اور اس موقع پر 10 نکاتی پروگرام طئے کیا گیا اور کلیۃ البنات، اسلامک ریسرچ سنٹر، پریس، دارالمبلغین ، دارالحدیث ، دارالتفسیر اور دارالضیوف کا قیام اور اس کے لئے عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ علاوہ ازیں حکومت تلنگانہ کے 14 کروڑ کی امداد سے آڈیٹوریم کی تعمیر آپ کی اور حضرت مفکر اسلام مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے باہمی تال میل کا نتیجہ ہے۔ پس آپ کا دور امارت نظامی برادری کیلئے مجموعی طور پر رحمت کا باعث بنا اور آپ کے استعفی سے بہت صدمہ ہوا، اس لئے کہ نظامیہ کے دستور، قانون ملازمت، انتظامی معاملات اور تاریخ سے آپ کے علاوہ حضرت مفکر اسلام مولانا مفتی خلیل احمد اور حضرت ڈاکٹر عبدالمجید نظامی سابق صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ ہی زیادہ واقف ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں آپ کا استعفی جامعہ کے ایک مخلص، وفادار عظیم خدمت گذار سے محرومی کا باعث ہے اور استعفی کے بعد آپ نے جس اعلیٰ ظرفی اور شریف النفسی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپ کی محبت میں اور اضافہ کرگیا۔
وائے ناکامی اِمتاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا