رام چندر گوہا
یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے میںماضی میںبڑی فوجی طاقتوں کی جانب سے کی گئی چار فوجی کارروائیوں پر سوچنے پر مجبور ہوگیا ۔ ان ممالک نے ان کارروائیوں کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا ۔ اگر میں صرف اپنی زندگی کی بات کروں تو پھر یہ چوتھی اس طرح کی غلط فوجی کارروائی تھی ۔ امریکہ نے ویتنام اور عراق میں ایسی کارروائیاں کی تھیں جبکہ سوویت یونین نے افغانستان میں ایسی کارروائی کی تھی ۔ سابق میں کی گئی تینوں کارروائیوں بہت بری طرح ختم ہوئیں۔ جس ملک کو نشانہ بنایا گیا وہاں بے تحاشہ نقصانات ہوئے ۔ جن ممالک نے حملہ کیا ان کا غرور ٹوٹ گیا اور ساری دنیا پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ۔
1965 میں جب صدر جانسن نے ویتنام میں امریکی مداخلت کو وسعت دی اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا جو شمالی ہند میں پل رہا تھا ۔ مجھے جنگ جس طرح چلی اس کی صرف چند یادیں ہیں لیکن جنگ جس طرح ختم ہوئی وہ بہت اچھی طرح یاد ہے ۔ اپریل 1975 میں میںدہلی کے ایک کالج کا طالب علم تھا اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ بی بی سی پر سائیگون سے امریکہ کے سپاہیوں کی آخری پرواز سے متعلق نشریات سن رہا تھا ۔ ہم اسے امریکہ کیلئے جیسی کرنی ویسی بھرنی سمجھ رہے تھے کیونکہ ہم ایشیا سے اظہار یگانگت کر رہے تھے اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے بنگلہ دیش بحران کے دوران امریکہ کی جانبداری دیکھی تھی کہ کس طرح سے وہ پاکستان کے بہیمانہ اور نسل کشی کرنے والے فوجی حکمرانوں کی تائید کر رہا تھا ۔
ڈسمبر 1979 میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملہ کردیا ۔ دہلی میںاس وقت چرن سنگھ کی قیادت میں ایک کارگذار حکومت تھی ۔ مخالف استعماریت کی بہترین روایات کے مطابق چرن سنگھ نے ایک ایسے ملک پر حملہ کیلئے سوویت یونین کی مذمت کی تھی جس کے ساتھ ہمارے دیرینہ اور قریبی روابط تھے ۔ تاہم جنوری 1980 میں مسز اندار گاندھی بحیثیت وزیر اعظم اقتدار پر واپس ہوئیں اور انہوں نے سوویت کارروائیوں کی حمایت کی ۔ اندرا گاندھی کی تائید دہلی میں موافق سوویت صحافی بھی کر رہے تھے ۔ ان صحافیوں کو سوویت حملہ آوروں نے کابل کا ایک طئے شدہ دورہ کروایا اور واپس آنے کے بعد انہوں نے وہاں کے حالات کو بہترین قرار دیتے ہوئے پیش کرنا شروع کیا اور کہا کہ کس طرح سے جاگیردارانہ اور جبر والی حکومت کے خلاف سوشلزم اور آزادی کو راستہ دکھایا گیا ہے ۔
1986 میں جب میں پہلی مرتبہ امریکہ گیا تو مجھے ویزا کلکتہ قونصل خانہ سے ملا تھا جو اس وقت ہیرنگٹن اسٹریٹ ہوا کرتی تھی ۔ 1967 میں اسے ہو چی منہہ سرانی کا نام دیا گیا کیونکہ اس وقت وہاں بائیں بازو نظریات کی ریاستی حکومت تھی۔ اس اسٹریٹ ’ امر نام ۔ تومر نام ۔ ویتنام ‘ کے نعرے بھی تحریر کئے گئے تھے ۔ امریکی یونیورسٹی میں جہاں میں تدریس سے وابستہ تھا ‘ میں نے ایک اجلاس میں شرکت کی جسے جلا وطن افغان مجاہدین آزادی نے خطاب کیا تھا ۔ افسانوی تاجک لڑاکے احمد شاہ مسعود سے تعلق رکھنے والے یہ متاثر کن افراد تھے ۔ قابل فخر محب وطن اور بہت زیادہ سکیولر کہلاتے تھے ۔ اس اجلاس میں میں واحد ہندوستانی تھا ۔ وہاں مجھے ایک افغان نمائندہ نے کہا کہ اندرا گاندھی نے ہمیں مایوس کیا ہے ۔ وہ کس طرح ہمارے ملک پر سوویت قبضہ کی تائید کرسکتی ہیں ؟ ۔ حکومت ہند کس طرح ایسا کرسکتی ہے ؟ ۔ میرے پاس دینے کو کوئی جواب نہیں تھا ۔
افغان مجاہد آزادی ایک دراز قد ‘ تندرست اور پریشان شخص تھا ۔ میں اس کے الفاظ سنتے اور تحریر کرتے ہوئے اسے دیکھ سکتا تھا ۔ وہ صحیح تھا ۔ اندرا گاندھی حکومت میں ہندوستان نے سوویت قابضین کی تائید کرکے غلطی کی تھی ۔ ہماری حکومت کو اس قبضہ کو جلد برخواست کروانے کیلئے کام کرنا چاہئے تھا ۔ آخر میں ہندوستان اور دوسرے حلیفوں کی حمایت سے حوصلہ پاکر سوویت افواج نے وہاں مکمل ایک دہے تک قیام کیا ۔ وہاں سوویت حکام نے ایک ایسی اپوزیشن کو حوصلہ دیا جنہوں نے ایک مذہبی بلکہ بنیاد پرستانہ روش اختیار کی اور ایک خانہ جنگی کو چھیڑ دیا جس نے ملک کو تباہ کردیا اور یہیں سے طالبان کیلئے راہ ہموار ہوئی ۔ اسی کے نتیجہ میں سوویت افواج کو اسی طرح ہزیمت کے ساتھ واپس ہونا پڑا جس طرح سے امریکہ نے ویتنام سے تخلیہ کیا تھا ۔
2001 میں اب امریکہ کی باری تھی کہ افغانستان پر بمباری کرے اور وہاں افواج بھیجے ۔ سابقہ سوویت مثال کی بہ نسبت اس کارروائی کا نسبتا جواز تھا ۔ 11 ستمبر کے حملے ایک گروپ القاعدہ نے کئے تھے جنہیں افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت کی تائید حاصل تھی اور طالبان نے ہی انہیں پناہ دی تھی ۔ 2002 کے آخری مہینوں میں نیویارک ٹائمز کے صحافی تھامس فرائیڈمن بنگلور آئے ۔ میں نے ایک مشترکہ دوست کے گھر ان سے ملاقات کی جہاں انہوں نے وہ تمام فرضی جواز پیش کئے جن کے ذریعہ وہ افغانستان پر قبضہ کے بعد امریکہ کے عراق پر حملے اور قبضہ کو درست قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ میں نے حتی المقدور ان کی نفی کرنے کی کوشش کی ۔ میں نے ان سے کہا کہ عراق کا 9/11 میں کوئی رول نہیں تھا ۔ میں نے مزید بتایا کہ عراق ‘ امریکہ سے کافی دور ہے اور اس کی حکومت سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ میں نے ویتنام میں امریکہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی بھی یاد دہانی کروائی ۔ تاہم نہ کوئی منطق کام آئی اور نہ تاریخ کے کسی حوالے کو انہوں نے قبول کیا۔ وہ بعد میں جنگ کے بہت بڑے حامی بن گئے ۔
اپنے غیرقانونی اور غیر اخلاقی حملے کو درست قرار دینے امریکیوں نے یہ کہانی گھڑی کہ عراق کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہیں۔ حقیقت میں یہ سوپر پاور ہونے کے خبط کی کارروائی تھی اور اسی کے عواقب کے ساتھ ہم اب تک جی رہے ہیں۔