چالیس ملین مزدوروں سے مودی حکومت کا تساہل

   

امجد خان
ہندوستان میں لاک ڈاون نافذ کئے جانے کے بعد سے خاص طور پر نقل مکانی کرنے والے مزدوروں، غریب اور متوسط طبقات کے پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن مودی حکومت نے چند ایک اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت ضرورت مندوں کی مدد کررہی ہے۔ حالانکہ سرحدوں کے بند کئے جانے اور ذرائع حمل و نقل پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد سے لاکھوں کی تعداد میں مزدور ملک کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور جن مزدوروں نے پیدل ہی اپنے دیہاتوں جانے کی ہمت کی انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بعض اپنی زندگیوں سے محروم بھی ہوگئے۔ ان میں کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ہندوستان میں لاک ڈاون نافذ کئے جانے کے بعد سے کم از کم 40 ملین مزدوروں پر اثر پڑا ہے۔ چند دنوں میں 50 ہزار تا 60 ہزار مزدور شہری علاقوں سے دیہی علاقے منتقل ہوئے ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں غربت پائے جانے کے بعد ایسا ہوا ہے اور نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی تعداد عالمی شرح سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ لاک ڈاون اور پھر روزگار سے محرومی کے ساتھ ساتھ سماجی دوری کے اصول نے ملک میں افرا تفری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ انہیں خدمات صحت کی فراہمی اور رقم کی منتقلی کے علاوہ دیگر سماجی پروگرامس حکومت کے لئے ایک چیلنج ہے اور سب سے بڑا چیلنج مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں پی ایم کیرس فنڈ قائم کیا گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سے غریبوں کا کچھ بھلا نہیں ہوا۔ حکومت نے اگرچہ 500 تا 1500 روپے بینکوں میں جمع کروانے کا اعلان کیا ہے لیکن اسے یہ جان لینا چاہئے کہ مہنگائی کے اس دور میں 1500 روپے کی کوئی اہمیت نہیں۔ کم از کم نریندر مودی حکومت کو دہلی کی اروند کجریوال حکومت سے سبق سیکھنا چاہئے جس نے آٹو اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے بینک اکاؤنٹس میں 5000، 5000 روپے جمع کروائے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ رضاکارانہ تنظیموں نے ان غریب اور پھنسے ہوئے مزدوروں کے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہے۔ یہ صرف تلنگانہ یا دہلی میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ سارے ہندوستان میں غیر سرکاری تنظیمیں پھنسے ہوئے مزدوروں کی مدد کررہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ڈاکٹروں کو حملوں سے بچانے کے لئے ایک آرڈیننس کو منظوری دی ہے جس کے تحت حملہ آوروں کو 6 ماہ سے لے کر 7 سال تک کی سزا دی جائے گی، جبکہ ایک لاکھ تا 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ڈاکٹروں پر حملہ کرنے والوں کے لئے سزا رہی لیکن مودی حکومت نے اس فرقہ پرست میڈیا کو کوئی سبق سکھانے کی کوشش نہیں کی جو ملک میں مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کررہا ہے اور کورونا جیسے مہلک وائرس کو مسلمانوں سے جوڑنے میں سب سے آگے ہے۔ اس طرح کے ضمیر فروش میڈیا کے خلاف کارروائی کرنا حکومت کا اولین فرض ہے کیونکہ اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی شبیہہ متاثر ہو رہی ہے، ساتھ ہی اندرون ملک بھی نفرت کی لہر پیدا ہو رہی ہے۔ مودی حکومت کو فی الوقت کئی ایک چیلنجس کا سامنا ہے ایسے میں وہ فرقہ پرستی کی چادر تانے غفلت کی نیند نہیں لے سکتی۔ سب سے پہلے اسے فرقہ پرستی وائرس پر قابو پانا چاہئے اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے مزدوروں کی دل کھول کر مدد کرنی چاہئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مہاراشٹرا میں ایک شلٹر میں رکھے گئے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ایسا ناقص کھانا دیا جارہا ہے جسے کتے بھی نہیں کھاتے۔

ملک میں کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں مزدور کئی سو کیلو میٹر پیدل چلنے کے باعث ہلاک ہوگئے۔ یہ سوال بہت زیادہ گردش کررہا ہے کہ نریندر مودی حکومت بیرونی ممالک میں پھنسے ہندوستانیوں کو خصوصی طیاروں کے ذریعہ ملک واپس لاتی رہی لیکن اندرون ملک ہی پھنسے غریب مزدوروں کو ان کے دیہاتوں تک پہنچانے میں بالکل ناکام رہی ۔ وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں یوم پنچایت کے موقع پر سرپنچوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ شہر والوں سے زیادہ دیہاتیوں نے کورونا وائرس کے خلاف لاک ڈاون پر سختی سے عمل آوری کی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دیہاتوں سے روزگار کے لئے نکلے لاکھوں مزدوروں کی حالت زار سدھارنے کے لئے انہوں نے کیا کہا۔ مودی یہی کہتے رہے کہ کورونا وائرس نے ہندوستانیوں کو یہ سبق دیا ہے کہ اپنے آپ پر انحصار رکھیں کسی پر انحصارنہ رکھیں۔ اپنے بل بوتے پر ہی کچھ کریں۔ کاش مودی جی یہ کہتے کہ کورونا وائرس نے یہ سبق بھی دیا ہے کہ مزدوروں اور غریبوں کی دل کھول کر مدد کی جائے۔ کورونا نے یہ سبق ضرور دیا ہوگا کہ لیکن مودی اور ان کے ساتھیوں نے شاید وہ سبق یاد نہیں کیا ہوگا۔