نریندر مودی 75 برس کے ہوگئے … ریٹائرمنٹ پر تجسس
نائب صدر کا انتخاب … انڈیا الائنس میں کراس ووٹنگ
رشیدالدین
75 سال ایک معمہ بن چکا ہے۔ کیا سیاستدانوں کو 75 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لینا چاہئے؟ ملک کی سیاست اور خاص طور پر بی جے پی حلقوں میں 75 سال پر بحث اس وقت تیز ہوگئی جب وزیراعظم نریندر مودی عمر کے 75 ویں برس میں قدم رکھنے والے تھے ۔ بی جے پی نے اصول بنایا تھا کہ 75 سال والوں کو عملی سیاست سے سبکدوش کردیا جائے گا ۔ اسی شرط کے تحت ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، سمترا مہاجن اور کئی دوسرے قائدین کو انتخابی سیاست سے دور کرتے ہوئے گھر کا راستہ دکھادیا گیا۔ بی جے پی قائدین اور عوام کی نظریں نریندر مودی پر ٹکی ہیں جو 17 ستمبر کو عمر کی 75 ویں بہار میں قدم رکھیں گے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہتے ہوئے تجسس میں اضافہ کردیا تھا کہ 75 ویں سالگرہ کا مطلب ریٹائرڈ ہوکر دوسروں کو موقع دینا ہوتا ہے۔ موہن بھاگوت اور نریندر مودی چند دن کے وقفہ سے 75 سال کے ہورہے ہیں اور تاثر یہ تھا کہ دونوں بھی عہدوں سے شائد سبکدوش ہوجائیں۔ موہن بھاگوت نے 75 ویں سالگرہ سے عین قبل یو ٹرن لیتے ہوئے بیان تبدیل کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 75 سال میں سبکدوشی کے بارے میں ہم نہ کسی سے کہتے ہیں اور نہ خود ہوں گے ۔ جب سنگھ پریوار اور بی جے پی میں دوسروں کے لئے ریٹائرمنٹ کی حد مقرر کی گئی تو پھر مودی اور بھاگوت پر اس کا اطلاق کیوں نہیں؟ موہن بھاگوت 11 ستمبر کو 75 برس کے ہوگئے جبکہ مودی 17 ستمبر کو ہوں گے۔ پتہ یہ چلا کہ 75 سال کا اصول دوسروں اور خاص طور پر اپنے مخالفین کے لئے ہے۔ آر ایس ایس جو کبھی حکومت کا ریموٹ اپنے ہاتھ میں رکھتی تھی ، آج مودی۔امیت شاہ کے پاس یرغمال دکھائی دے رہی ہے ۔ گجرات کی اس جوڑی نے موہن بھاگوت کو بیان بدلنے پر مجبور کردیا ۔ سرکاری ملازمین ، سیول سرویس آفیسرس حتیٰ کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججس کے ریٹائرمنٹ کی عمر کا جب تعین کردیا گیا ہے تو پھر سیاستدانوں کیلئے تاحیات سیاست کرنے کی اجازت کیوں؟ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب آنجہانی این ٹی راما راؤ نے چیف منسٹر بننے کے بعد سرکاری ملازمین کیلئے وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر کو 58 سے گھٹاکر 55 کردیا تھا، ملازمین نے شدید احتجاج کیا اور اردو کے شعراء نے طنزیہ انداز میں این ٹی آر سے سوال کیا تھا کہ سیاسی قائدین 60 سال کی عمر میں حکومت کرسکتے ہیں تو پھر سرکاری ملازمین پر پابندی کیوں؟ الغرض این ٹی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔ ملک کے سیاستدانوں میں آج بھی کئی ایسے نظر آئیں گے جو خود سے چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور سہاروں کے محتاج ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ دماغی طور پر غیر حاضر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں، کیا کہہ رہے ہیں ، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ ضعیف العمر اور بوڑھی قیادتوں کے خلاف ہی نیپال میں نوجوانوں نے بغاوت کردی جہاں چند اولڈ ایج لیڈرس باری باری سے حکومت کر رہے تھے۔ نیپال اور ہندوستان کے حالات میں کوئی یکسانیت نہیں ہے لیکن سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آخر نوجوانوں کو موقع کب ملے گا۔ 18 سال کی عمر میں نوجوانوں کو ووٹ کا حق فراہم کرتے ہوئے سیاسی شعور کو بیدار کردیا لیکن حکمرانی میں ان کی حصہ داری نہیں ہے ۔ ازکار رفتہ قیادتوں نے ملک کے مسائل کے حل کے بجائے ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔ عمر کی ایک حد کو پہنچنے کے بعد اعضائے رئیسہ کا جواب دینا فطری عمل ہے لیکن ہندوستان میں بعض قائدین اقتدار کی کرسی سے سیدھے ارتھی پر جانا چاہتے ہیں۔ اقتدار ہی سب کچھ ہوچکا ہے ۔ بی جے پی کو لوک سبھا کے 2 ارکان سے اقتدار تک پہنچانے والے ایل کے اڈوانی کو خود ان کے شاگرد نریندر مودی نے گھر کا راستہ دکھادیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں استادوں کو اپنے شاگردوں پر بھروسہ کم اور خطرہ زیادہ محسوس ہورہا ہے ۔ اولڈ ایج ہوم یا گھر میں آرام کی منزل کو پہنچنے والے قائدین اقتدار سے چمٹے رہیں تو پھر نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع کب ملے گا۔ 75 سال کی بحث پر مودی اور امیت شاہ نے آج تک کوئی تبصرہ نہیں کیا کیونکہ پارٹی اور حکومت دونوں پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ سنگھ پریوار بھی ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کیلئے گجرات کی جوڑی سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ 17 ستمبر کو مودی کی سالگرہ کے وقت اعلان کردیا جائے گا کہ جس قیادت نے ہندوستان کو مضبوط کیا اور عالمی سطح پر ملک کے وقار میں اضافہ کیا ، ان کے ریٹائرمنٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 2014 میں مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے جن سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا، اس کے بعد سے سرکاری مشنری اور اداروں کی مدد سے اقتدار میں واپسی کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ ووٹ چوری ہو یا پھر سی بی آئی ، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ یا پھر انکم ٹیکس جیسے اداروں کے استعمال کے ذریعہ اپوزیشن کو کمزور کردیا گیا۔ صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مودی ۔ امیت شاہ کے بغیر حکومت اور پارٹی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو گودی میڈیا میں تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن اور ہر مخالف آواز کو دبادیا گیا ۔ آر ایس ایس ، بی جے پی اور حکومت میں کسی میں ہمت نہیں کہ 75 سال کی شرط کے بارے میں مودی سے سوال کرسکیں۔ 17 ستمبر کے بعد نریندر مودی کے ریٹائرمنٹ کے بارے میں قیاس آرائی محض جاگتی آنکھوں کا خواب کے سوا کچھ نہیں رہے گی۔
ہندوستان کو ایک اور جگدیپ دھنکڑ مل چکے ہیں۔ مہاراشٹرا کے گورنر اور ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والے سی پی رادھا کرشنن نے ملک کے 15 ویں نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کا حلف لے لیا۔ تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب کسی نائب صدر جمہوریہ کو میعاد کی تکمیل سے قبل ہی استعفیٰ کے لئے مجبور کیا گیا۔ جگدیپ دھنکڑ نے 11 اگست 2022 کو عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی تھی اور محض دو سال 344 دن عہدہ پر برقرار رہے اور اچانک 21 جولائی 2025 کو ناسازیٔ مزاج کا بہانہ بناکر استعفیٰ دے دیا ۔ استعفیٰ کے بعد پہلی مرتبہ جگدیپ دھنکڑ اپنے جانشین رادھا کرشنن کی حلف برداری تقریب میں دکھائی دیئے لیکن ان پر خرابی صحت کے کوئی آثار نہیں تھے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک کے دستوری عہدوں پر مودی حکومت صرف ایسے قائدین کو مقرر کر رہی ہے جو حکومت کے اساس پر کام کریں۔ رادھا کرشنن کی حلف برداری کے ساتھ ہی جگدیپ دھنکڑ کو عوام بھول چکے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ کے الیکشن میں انڈیا الائنس نے جسٹس سدرشن ریڈی کو امیدوار بنایا تھا۔ سدرشن ریڈی نے مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انہیں اپنا ووٹ دیں لیکن نتائج چونکادینے والے رہے۔ این ڈی اے اتحاد کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 422 کی عددی طاقت حاصل ہے لیکن رادھا کرشنن کو 452 ووٹ حاصل ہوئے یعنی حقیقی تعداد سے 30 ووٹ زائد ملے۔ دوسری طرف انڈیا الائنس کی دونوں ایوانوں میں عددی طاقت 315 ہے لیکن جسٹس سدرشن ریڈی کو 300 ووٹ حاصل ہوئے۔ یعنی کہ 15 ارکان نے کراس ووٹنگ کی ہے۔ رائے دہی میں 15 ووٹ مسترد کردیئے گئے جو شائد ایسے ارکان کے ہیں جو راست طور پر بی جے پی کی تائید کے بجائے اپنے ووٹ کو ضائع کرنے کو غنیمت سمجھا۔ سی بی آئی ، ای ڈی اور انکم ٹیکس کا خوف ان پر چھایا رہا۔ ویسے بھی الیکشن کی نگرانی امیت شاہ کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہر کسی سے نمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ رادھا کرشنن کو 30 ووٹ ظاہر ہے انڈیا الائنس کی حلیف جماعتوں سے ہی حاصل ہوئے ہوں گے۔ کراس ووٹنگ کے سلسلہ میں شرط پوار ، اروند کجریوال ، ادھو ٹھاکرے اور ایم کے اسٹالن کی پارٹیوں پر شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے جن کی اپنی اپنی ریاستوں میں کچھ نہ کچھ مجبوریاں ہیں۔ پنجاب میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کو کانگریس سے مقابلہ درپیش ہے۔ پنجاب میں بی جے پی کمزور ہے ، لہذا عام آدمی پارٹی نے نائب صدر جمہوریہ کے الیکشن میں اپنی حریف کانگریس کو کمزور دکھانے کی کوشش کی ہے ۔ بی آر ایس ، بی جے ڈی اور اکالی دل کے جملہ 12 ارکان نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔ باوجود اس کے این ڈی اے امیدوار کو 30 زائد ووٹوں کا حصول اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی اور امیت شاہ نے اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے کیسی بساط بچھائی تھی۔ بی جے پی خوش ہے کہ رادھا کرشنن کو زائد ووٹ حاصل ہوئے لیکن گزشتہ تین برسوں میں این ڈی اے کمزور اور انڈیا الائنس مضبوط ہوا ہے۔ 2022 میں این ڈی اے امیدوار جگدیپ دھنکر کو 528 ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ رادھا کرشنن کو 452 ووٹ ملے۔ جگدیپ دھنکڑ کے خلاف انڈیا الائنس کی امیدوار مارگریٹ آلوا کو 182 ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ جسٹس سدرشن ریڈی کو 300 ووٹ ملے ہیں۔ این ڈی اے کے ووٹوں میں 76 کی کمی ہوئی جبکہ انڈیا الائنس کے ووٹوں میں 118 کا اضافہ ہوا ہے ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ملک میں سیاسی منظر تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ نکہت افتخار نے کیا خوب کہا ہے ؎
چاہے نظریں ہوں آسمانوں پر
پاؤں لیکن زمین پر رکھیئے