چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

   

کرکٹ کو مذہبی رنگ … یوگی کا نیا انتخابی حربہ
محمد سمیع نشانہ پر … جشن کے نام پر مقدمات

رشیدالدین
طالبان ، مسلمان اور پاکستان ۔ یہ محض تین الفاظ نہیں بلکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پسندیدہ مسائل ہیں جن کے بغیر سیاست مکمل نہیں ہوتی۔ جب کبھی بی جے پی کا موقف کمزور ہونے لگے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہو تو ان میں سے کسی ایک مسئلہ کو چھیڑ دیا جاتا ہے ۔ جس طرح اچھے پکوان کیلئے خالص مصالحہ جات کی ضرورت پڑتی ہے ، ٹھیک اسی طرح سیاست کو ضائقہ دار بنانے طالبان ، مسلمان اور پاکستان ضروری ہوچکا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذکورہ تینوں مسائل بی جے پی اور سنگھ پریوار کیلئے سنجیونی کا کام کرتے ہیں۔ رام مندر ، لو جہاد اور بیف جیسے مسائل اب بے اثر ہونے لگے ہیں کیونکہ عوام ان مسائل کی آڑ میں نفرت کی سیاست کی حقیقت جان چکے ہیں۔ اب تو موقع محل اور ضرورت کے لحاظ سے مسائل کو پیدا کیا جاتا ہے ۔ تہواروں کے جلوس کے موقع پر مسلم عبادتگاہوں اور آبادیوں پر حملہ کرنا سارے ملک میں آسان نسخہ ہے جس کے تحت ہندوؤں کو متحد اور مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جاسکتا ہے ۔ بیف اور لو جہاد کے نام پر ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو ہلاک کرنا فیشن بن چکا ہے ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ مودی حکومت میں زعفرانی نفرت کے سوداگروں کے لئے کسی جرم کی کوئی سزا نہیں ہے ۔ دیش بھکتی کا نعرہ لگاؤ اور جو چاہے کرو، 12 خون معاف ہیں۔ آر ایس ایس اور زعفرانی تنظیمیں 2014 ء کے بعد کی پیداوار نہیں ہے بلکہ آزادی کے قبل سے ان کا وجود ہے ۔ 2014 ء سے قبل اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی حکومت مرکز میں برسر اقتدار رہ چکی ہے لیکن سنگھ پریوار بے قابو نہیں تھا ۔ 2014 ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد جیسے انہیں من مانی کا لائسنس مل چکا ہے۔ دستور ، قانون اور عدلیہ کا کوئی خوف باقی نہیں رہا۔ ظاہر ہے کہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا ماضی فسادات سے جڑا ہوا ہے اور ان کے دامن پر بے قصور اور معصوموں کے خون کے نشان ہیں تو ایسے میں ان کے راج میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملنا کوئی عجب نہیں۔ اٹل بہاری واجپائی حکومت میں ایل کے اڈوانی وزیر داخلہ تھے جنہوں نے رام مندر کے لئے رتھ یاترا کے ذریعہ ملک میں فسادات کی آگ بھڑکائی تھی لیکن واجپائی راج دھرم نبھانے پر یقین رکھتے تھے، لہذا سنگھ پریوار اپنے حدود سے تجاوز نہ کرسکا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی عنوان کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے تو کوئی سزا نہیں ہے ۔ نفرت اور فسادات کی آگ تریپورہ تک پہنچ گئی ۔ جہاں مسلمانوں کی عبادتگاہوں اور مکانات کو نشانہ بنایا گیا ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے عام ہندوستانیوں کے ذہن میں نفرت کا زہر پھیلادیا ہے ۔ بی جے پی کے پاس ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی ایجنڈہ نہیں جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ ہر الیکشن سے قبل کوئی جذباتی اور متنازعہ مسئلہ منظر عام پر آجاتا ہے ۔ افغانستان میں طالبان کے غلبہ کے بعد سے مسلمانوں کو طالبانی کہہ کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ حالانکہ طالبان سے ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ مسلم ، مذہبی ، رہنماؤں اور اداروں حتیٰ کہ دینی مدارس کو طالبان سے جوڑ دیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں کہا گیا کہ طالبان نے یہاں تعلیم حاصل کی۔ مودی حکومت نے طالبان کی شدت سے مخالفت کی لیکن تیسرے ملک میں طالبان سے بات چیت کی گئی جس کے بعد مسلمانوں کو طالبان سے جوڑنے والوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کسی بھی واقعہ پر اکثریتی فرقہ میں جوش پیدا کرنا ہو تو لفظ مسلمان کہہ کر کچھ الزامات عائد کرنا معمول بن چکا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کھیل کود کو تنگ نظری اور فرقہ واریت کی عینک سے دیکھا جارہا ہے۔ کرکٹ جو عوام میں مقبول کھیل ہے، اسے بھی نفرت اور سرحدوں کی پابندیوں میں جکڑدیا گیا ۔ ورلڈکپ میں ہندوستان کے مقابلہ پاکستان کو کامیابی کیا مل گئی بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ایک ایشو مل گیا۔ مسلمانوں پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک سے غداری کا لیبل لگادیا گیا ۔ کشمیر اور اترپردیش میں طلبہ کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو اترپردیش الیکشن میں کامیابی کیلئے کسی مسئلہ کی تلاش تھی اور کرکٹ میں ہندوستان کی شکست سے انہیں انتخابی موضوع مل گیا۔ یوگی نے کہا کہ پاکستان کی جیت کا جشن منانے والوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے گا ۔ کم از کم کھیل کود کو نفرت کی سیاست سے دور رکھنا چاہئے کیونکہ اسپورٹس کو مذہب یا علاقہ کی عینک سے نہیں دیکھا جاتا۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کرکٹ میچ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوتا ہے جس پر خوش ہونے کے بجائے نتیجہ کو لے کر مسلمانوں کو غدار کہنا شرمناک ہے۔ 1857 ء کی جدوجہد آزادی سے آج تک مسلمانوں کی حب الوطنی کی طویل فہرست ہے لیکن ہم صرف اتنا کہیں گے کہ ملک کے خلاف جاسوسی میں آج تک ایک بھی مسلمان ملوث نہیں رہا ۔ حتیٰ کہ کشمیر جیسی سرحدی ریاست میں ہندوستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث عہدیدار اور افراد بھی مسلمان نہیں تھے۔ ان دنوں بحریہ کے راز فاش کرنے پر پانچ عہدیداروں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ اگر مسلمان ملوث ہوتے تو گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ۔ جاسوسی کرنے والے چونکہ مسلمان نہیں ہے ، لہذا میڈیا غیر اہم نیوز کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ ہندوستان کا کوئی بھی الیکشن پاکستان کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یوگی ادتیہ ناتھ پاکستان کی کامیابی پر خوش ہونے والوں کو دھمکی دے رہے ہیں۔ یقیناً کوئی بھی ہندوستانی اپنے ملک کی ہار پر خوش نہیں ہوسکتا لیکن یوگی سے کوئی پوچھے کہ نریندر مودی جب نواز شریف کی سالگرہ میں بن بلائے مہمان بن کر لاہور پہنچ گئے تھے، وہ دیش بھکتی تھی یا پھر کچھ اور۔ یوگی کو کون سمجھائے کہ کھیل کود کسی بھی علاقہ ، مذہب ، رنگ و نسل اور زبان کے حدود سے بالاتر ہوتا ہے ۔ کھیل کو صرف کھیل کی طرح دیکھیں جس میں ہار اور جیت لگی رہتی ہے۔ پاکستان میں بھی یوگی ذہنیت رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ وزیر داخلہ شیخ راشد احمد نے پاکستان کی جیت کو اسلام کی جیت قرار دیا۔ اس نادان سیاستداں سے کوئی پوچھے کہ ہندوستان نے سابق میں پاکستان کو 11 میچس میں ہرایا تھا تو کیا اسے ہندو مت کی کامیابی کہا جائے؟ 50 اوورس کے ورلڈ کپ میں 6 مرتبہ اور 20 اوورس کے ورلڈکپ میں 5 مرتبہ ہندوستان نے پاکستان کو شکست دی ہے۔ اس وقت تو ہر ہندوستانی نے کامیابی کا جشن منایا تھا ۔ شکست کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنا عصبیت اور نفرت نہیں تو کیا ہے ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ شکست کے بعد ہندوستانی ٹیم کے اسٹار بولر محمد سمیع کے خلاف مہم شروع کردی گئی اور شکست کیلئے ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں محمد سمیع کو ملک کا غدار کہا جانے لگا۔ کامیابی یا شکست کا دارومدار کسی ایک کھلاڑی پر نہیں بلکہ ساری ٹیم پر ہوتا ہے لیکن محمد سمیع کو صرف اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ کرکٹ میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والوں میں پٹوڈی ، سلیم درانی، عابد علی، سید کرمانی ، محمد اظہرالدین ، عرفان پٹھان اور دیگر مسلم کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے۔ انڈین ٹیم میں ہمیشہ دو سے تین تک مسلم کھلاڑی رہ چکے ہیں لیکن آج ایک کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا ہے ۔ یہ وہی محمد سمیع ہیں جنہوں نے 2017 ء چمپینس ٹرافی فائنل میں ہار کے بعد پویلین سے لوٹنے والی ہندوستانی ٹیم کے خلاف فقرے کسنے والے پاکستانی شائقین کو دوبدو چیلنج کیا تھا۔ وہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے خلاف ریمارکس سے بھڑک اٹھے اور پاکستانی شائقین سے لڑائی کیلئے آگے بڑھ گئے ۔ ہندوستان اور ہندوستانی کھلاڑیوں کے لئے سینہ سپر ہونے والے محمد سمیع کے خلاف مہم کوتاہ ذہنی کا ثبوت ہے ۔ افسوس کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ملک کے وزیر اسپورٹس کے علاوہ بی جے پی کے کسی قائد نے محمد سمیع کا دفاع نہیں کیا۔ کم از کم وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو محمد سمیع کی تائید میں ٹوئیٹ کرنا چاہئے تھا ۔ بعض سابق ہندوستانی کرکٹرس نے محمد سمیع کی تائید کی لیکن بی سی سی آئی اور امیت شاہ کے فرزند جئے شاہ خاموش رہے۔ ہار کے بعد ویراٹ کوہلی نے پاکستانی کپتان کو گلے لگاکر مبارکباد دی لیکن ویراٹ کوہلی پر ملک سے غداری کا کوئی الزام عائد نہیں ہوا۔ دراصل ویراٹ کوہلی نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسپورٹس واحد شعبہ تھا جو فرقہ وارانہ آلودگی سے پاک تھا لیکن اسے بھی نفرت اور تعصب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اگر یہی رجحان جاری رہا تو پھر ہر مقابلہ میں ہندوستانی کھلاڑیوں پر زبردست ذہنی دباؤ برقرار رہے گا۔ پاکستان کے مسئلہ پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین کی سیاست جاری ہے لیکن دونوں ممالک کے فوجی کمانڈرس نے سرحدوںپر جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا ہے جس کے بعد سے سرحدوں پر سکون ہے ۔ بی جے پی اپنے انتخابی ایجنڈہ کو بھلا چکی ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں