چناؤ ہار گئے سب مشین جیت گئی

,

   

تین ریاستوں کے نتائج … عوام کا نہیں مشین کا فیصلہ
تلنگانہ نے کانگریس کی عزت بچالی

رشیدالدین
’’مودی میجک یا پھر مشین میجک‘‘ ملک کی چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے نتائج کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے کہ نتائج رائے دہندوں کے ہیں یا پھر مشین کا کمال ہے۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کے نتائج کے بارے میں ماقبل رائے دہی اوپنین پول اور مابعد رائے دہی اگزٹ پول کے نتائج سے واضح ہوچکا تھا کہ بی جے پی کو صرف راجستھان میں سبقت حاصل ہوگی جبکہ مدھیہ پردیش بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کا اقتدار باقی رہے گا۔ تلنگانہ میں تبدیلی کی لہر میں کے سی آر حکومت بہہ جائے گی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ آزاد اور غیر جانبدار میڈیا گھرانوں کے ساتھ ساتھ گودی میڈیا یعنی مودی میڈیا کے اندازے بھی یہی تھے لیکن جب نتائج سامنے آئے تو چونکا دینے والے تھے۔ بی جے پی نہ صرف مدھیہ پردیش میں اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی بلکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ کانگریس سے چھین لیا۔ صرف تلنگانہ کا نتیجہ اوپنین پول اور اگزٹ پول کے عین مطابق رہا ۔ تین ریاستوں کے نتائج نے ملک میں پھر ایک بار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے محفوظ ہونے پر بحث چھیڑدی ہے۔ میڈیا اداروں کے پول کی قیاس آرائیوں میں فرق ضرور ہوسکتا ہے لیکن نتائج بالکلیہ الٹ نہیں آسکتے جس طرح کہ تین ریاستوں میں آئے ہیں۔ ماہرین اور سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ تین ریاستوں کے نتائج عوام کے نہیں بلکہ ووٹنگ مشینوں کا فیصلہ ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو متعارف کئے جانے کے بعد سے کئی مرتبہ یہ ثابت کیا گیا کہ مشین محفوظ نہیں ہیں اور ان میں الٹ پھیر کی گنجائش ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی جگہ بیالٹ پیپرس کے ذریعہ انتخابات کا اپوزیشن نے مطالبہ کیا لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے الٹ پھیر کے اندیشوں کو خارج کردیا ۔ بعض ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی کا حوالہ دے کر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں خدشات کو بے بنیاد قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ 2014 ء میں مرکز میں مودی حکومت کی تشکیل کے بعد سے ہی ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کا آغاز ہوا جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ مشینوں کی مدد سے بی جے پی کامیابی درج کر رہی ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی قائدین تین ریاستوں کے نتائج کو درست قرار دے رہے ہیں۔ دراصل تلنگانہ میں بی جے پی جیت کے موقف میں نہیں تھی ، لہذا تین ریاستوں کی الٹ پھیر سے توجہ ہٹانے کیلئے تلنگانہ کے عوامی فیصلہ میں مداخلت نہیں کی گئی ۔ ماہرین نے بارہا یہ ثابت کیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ووٹ تبدیل کرنے کی ٹکنالوجی موجود ہے۔ جہاں جہاں بی جے پی کا اقتدار ضروری ہے، وہاں ٹکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ووٹنگ مشین واقعی محفوظ ہوتے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے الیکشن بیالٹ پیپر پر نہیں ہوتے۔ امریکہ ، برطانیہ ، روس ، جرمنی اور دیگر ممالک میں آج بھی رائے دہی بیالٹ پیپر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ کیا ان ممالک کو مشینوں کی افادیت کا اندازہ نہیں ہے ؟ اگر مشین محفوظ ہوتے تو امریکہ اور روس بیالٹ کے استعمال کے ذریعہ وقت ضائع نہ کرتے۔ جب فیس بک ، انسٹراگرام اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر کسی کا پرسنل اکاونٹ ہیک کیا جاسکتا ہے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا کیا بھروسہ۔ اب تو موبائیل فونس کو بھی ہیک کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ مشینوں کی سیکوریٹی کبھی بھی خطرہ میں پڑسکتی ہے۔ حکومتوں کے محکمہ جات کی ویب سائیٹ بھی محفوظ نہیں ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے تیار کنندگان نے محفوظ ہونے کی کوئی گیارنٹی نہیں دی ہے لیکن بی جے پی اور الیکشن کمیشن کس بنیاد پر مشینوں کو محفوظ قرار دے رہے ہیں۔ اگر مشینوں کا چلن برقرار رہا تو 2024 لوک سبھا چناؤ میں مودی کی کامیابی کی ضمانت ابھی سے دی جاسکتی ہے۔ تمام سروے راجستھان میں بی جے پی جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومت کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن نتائج میں تینوں ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار رہی اور کانگریس کا مظاہرہ انتہائی کمزور رہا۔ تینوں ریاستوں میں کانگریس کی نشستیں کم و بیش یکساں آئی ہیں۔ دراصل جہاں موقع ملتا ہے ، بی جے پی ٹکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔ لوک سبھا چناؤ سے قبل چار ریاستوں کے الیکشن کو سیمی فائنل کہا جارہا تھا ، اگر تین ریاستوں میں کانگریس کامیاب ہوجاتی تو 2024 ء لوک سبھا الیکشن میں مودی کے زوال کا آغاز ہوجاتا۔ کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس مضبوط ہوتا اور لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو سخت مقابلہ درپیش ہوتا۔ مودی اور امیت شاہ کی قیادت پر سوال کھڑے ہوتے لیکن ٹکنالوجی کی استعمال کے ذریعہ مودی نے اپنے تمام داخلی اور خارجی مخالفین کا منہ بند کردیا ہے۔ عام انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں اور عوامی تنظیموں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بجائے بیالٹ پیپر پر الیکشن کا مطالبہ کرنا چاہئے ورنہ نتائج کے بعد افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
چار ریاستوں کے نتائج سے بی جے پی اور کانگریس نے ہندوستان کو تقسیم کردیا ہے۔ بی جے پی نے شمالی ہند پر تقریباً اپنا کنٹرول قائم کرلیا جبکہ کانگریس جنوبی ہند تک محدود ہوچکی ہے۔ مرکز میں اقتدار کے لئے شمالی ہندوستان میں پارٹی کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بی جے پی نے شمالی ہندوستان کو ’’کانگریس مکت‘‘ بنادیا ہے اور کانگریس جنوبی ہند میں کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں اقتدار سے خوش ہے۔ حالانکہ جنوبی ہند سے لوک سبھا کی نشستوں کا مرکز میں اقتدار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ بی جے پی نے منصوبہ بند انداز میں شمال سے کانگریس کا صفایا کردیا ہے ۔ جہاں تک تلنگانہ کے نتائج کا سوال ہے ، تلنگانہ کے رائے دہندوں نے کانگریس کی عزت بچالی ہے ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی مسلسل محنت کے نتیجہ میں تلنگانہ میں ایک مضبوط علاقائی پارٹی کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں مدد ملی ہے۔ بی آر ایس جیسی پارٹی جس نے تلنگانہ جدوجہد کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہوئے 10 سال تک حکمرانی کی ، اسے شکست دینے میں راہول اور پرینکا مہم کا اہم رول رہا۔ ریونت ریڈی کی عوامی مقبولیت اور شاطرانہ سیاسی چالوں کے آگے کے سی آر جیسی ناقابل تسخیر شخصیت بھی ناکام ثابت ہوئی ۔ تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار کے بعد کانگریس اعلیٰ کمان تین ریاستوں کی شکست کے غم کو بھلانے کی کوشش میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ راہول اور پرینکا کی مہم کا تین ریاستوں میں اثر نہ ہوا ہو۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج چوہان حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کو ووٹنگ مشینوں نے تائید میں تبدیل کردیا۔ تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی گاندھی خاندان کی مہم اور ریونت ریڈی کی مقبولیت کے علاوہ کے سی آر حکومت سے عوامی ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا جب تلنگانہ سے گزری تب کانگریس کے اقتدار کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست نے تلنگانہ کانگریس قائدین کے حوصلوں کو بلند کیا ہے ۔ کانگریس کامیابی کے بعد بھی مکمل خوشی منانے کے موقف میں نہیں ہے۔ دراصل 119 رکنی اسمبلی میں 64 نشستوں کے ساتھ کانگریس نے اکثریت تو حاصل کرلی لیکن 40 رکنی قانون ساز کونسل میں بی آر ایس کو دو تہائی اکثریت ہے۔ 30 سے زائد بی آر ایس کے ارکان کونسل میں حکومت کے کسی بھی فیصلہ اور قانون کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف اسمبلی میں قانون سازی سے حکومت چلائی نہیں جاسکتی۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی کونسل میں بی آر ایس کی اکثریت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تلنگانہ میں کامیابی کے باوجود کانگریس کی آدھی حکومت ہے۔ حکومت کو اسمبلی اور کونسل کے بغیر ہی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ورنہ حکومت کا ہر فیصلہ کونسل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ الغرض تلنگانہ میں جیت کے باوجود کانگریس کی خوشی ادھوری ہے۔ دوسری طرف چار ریاستوں کے نتائج کا قومی سیاست پر ضرور اثر پڑے گا۔ موجودہ صورتحال میں 2024 ء لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوچکا ہے۔ لوک سبھا چناؤ تک کانگریس کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی اور انڈیا الائنس کی حلیف پارٹیوں میں اتحاد کی برقراری کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ لوک سبھا چناؤ کی انتخابی مہم میں راہول ۔ پرینکا جوڑی اہم رول ادا کرسکتی ہے کیونکہ مودی۔امیت شاہ جوڑی کے میجک میں اثر کم ہورہا ہے۔ الغرض اسمبلی نتائج کے چناؤ کے بعد قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندی شروع ہوگی۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
لہو میں بھیگی ہوئی آستین جیت گئی
چناؤ ہار گئے سب مشین جیت گئی