l دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد بھیم آرمی سربراہ کا مقصد
l این آر سی ، این پی آر اور سی اے اے ملک کے لیے نقصان دہ
حیدرآباد ۔ 27 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : جب بھی کسی قوم کی عزت نفس خطرہ میں پڑ جاتی ہے تب اس قوم میں ایسے نوجوان پیدا کردئیے جاتے ہیں جو اپنی قوم کی عزت نفس کو دشمنوں کے ہر خطرہ سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اس معاملہ میں وہ اپنے ذاتی مفادات پر قوم کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں خود مصیبتیں اٹھاتے ہیں لیکن قوم کو راحت پہنچانے کا سامان کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان ایسے ہوتے ہیں جنہیں بلا شبہ انقلابی کہا جاسکتا ہے اور جو اپنی قوم کے خلاف جانبداری ، تعصب ، نا انصافی ، عدم مساوات ، امتیاز اور توہین آمیز سلوک کو ہرگز برداشت نہیں کرتے چاہے ان کے منہ میں سونے کے سکے ٹھونس کر ان کی آواز بند کرنے کی لاکھ کوششیں ہی کیوں نہ کی جائیں ۔ ایسے انقلابی نوجوانوں اور قائدین سے ہی حکومت وقت سرکاری مشنریوں ، نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور خاص طور پر ظالموں پر خوف و دہشت طاری ہوجاتی ہے ۔ ایسے ہی نوجوانوں میں کنہیا کمار ، جگنیش میوانی اور چندر شیکھر آزاد عرف راون بھی شامل ہیں ۔ آجکل مرکزی و ریاستی حکومتیں جہاں کنہیا کمار سے پریشان دکھائی دیتی ہیں وہیں چندر شیکھر آزاد کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دہلی میں احتجاج کرنے پر گرفتار کرلیا گیا اور جب وہ ہمارے تاریخی شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد پہنچے تو شائد ریاستی حکومت اور حیدرآباد سٹی پولیس بھی پریشان ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے انہیں حراست میں لے کر چند گھنٹے مختلف مقامات منتقل کرتے ہوئے بالآخر ایرپورٹ پہنچا دیا گیا اور زبردستی دہلی روانہ کردیا گیا ۔ چندر شیکھر آزاد دراصل کرسٹل گارڈن میں این آر سی ، این پی آر اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی ریالی سے خطاب کرنے والے تھے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ہمارے ملک میں آمریت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں زبردستی بیٹھے جمہوریت دشمن عناصر من مانے فیصلے کررہے ہیں ۔ جہاں تک حیدرآباد کا سوال ہے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے خود پنجاب ، کیرالا اور بنگال کی تقلید کرتے ہوئے ریاستی اسمبلی میں سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر کے خلاف قرار داد پیش اور منظور کروانے کا اعلان کیا ہے ۔ ایسے میں چندر شیکھر راؤ کو ریالی سے خطاب کرنے سے روکنا اور انہیں حراست میں لے کر دہلی روانہ کردینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر چندر شیکھر آزاد اور کنہیا کمار سے شہر میں کون ڈر رہا ہے ؟ ان سے کس کس کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے ؟ بہر حال آپ کو بتادیں کہ جمہوریت میں جو آواز دبائی جاتی ہے وہ پوری طاقت کے ساتھ بلند ہوتی ہے ۔ 37 سالہ چندر شیکھر آزاد صاف طور پر کہہ رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون دستور کے مغائر ہے اور حکومت آمرانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔ ہمیشہ اپنے گلے میں آسمانی اسکارف ڈالے رکھنے والے چندر شیکھر آزاد پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں ۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانا چاہتے تھے ۔ لیکن دلتوں کے ساتھ ذات پات کے امتیاز کو دیکھ کر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کا خیال ترک کرکے اعلیٰ ذات والوں کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کی ۔ چندر شیکھر آزاد نے 2014 میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ بھیم آرمی اس وقت قائم کی جب اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے دلت بچوں کو اپنے بچوں کے ساتھ حصول علم سے روکا ۔ آج بھیم آرمی مغربی اترپردیش میں دلت بچوں کے لیے مفت اسکولس چلاتی ہے ۔ چندر شیکھر آزاد کے والد گوردھن داس سرکاری اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور دو سال تک کینسر سے لڑنے کے بعد چل بسے ۔ آزاد نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ والد کے ساتھ ہاسپٹلوں میں گذارے گئے اوقات نے انکی زندگی کی کایا پلٹ کر رکھدی ۔ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کی چمار بستی کے ساکن چندر شیکھر آزاد بتاتے ہیں کہ ان کے والد کو چمار دلت ہونے کے باعث ہمیشہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کا بار بار تبادلہ کیاگیا توہین کی گئی اور انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو یہی کہتے سنا ’ چمار ہے ماسٹر جی ‘ ۔ اپنے ولد کو جن تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا ان تجربات سے چندر شیکھر آزاد نے بہت کچھ سیکھا پھر دلتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کردیا ۔ ان کی والدہ کملیش دیوی بھی اپنے بیٹے کی بھر پور تائید کرتی ہیں ۔ سہارنپور میں نشہ کے الزام میں جس وقت آزاد کو NSA کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا وہ اپنے دیگر دو بیٹوں بھگت سنگھ اور کمل کشور کے ساتھ مہم چلائیں ۔ کملیش دیوی اپنے بیٹے کو انقلابی قرار دیتی ہیں ۔ بہر حال پولیس نے آزاد کے ساتھ جو سلوک کیا اسے وہ دلتوں کی توہین قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں آمریت نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے ۔۔