سابق وزیر اعظم کے بارے میں سابق نائب صدر نشین راجیہ سبھا ہری ونش کی کتاب میں انکشاف
نئی دہلی /14 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) 1952ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بارے میں اس وقت کی کانگریس حمایت یافتہ چندر شیکھر زیر قیادت حکومت ایودھیا تنازعہ کی آرڈیننس کے اجراء کے ذریعہ یکسوئی چاہتی تھی ۔ سابق وزیر اعظم کے بارے میں سابق نائب صدرنشین راجیہ سبھا ہری ونش نے اپنی کتاب ’’چندر شیکھر ۔ نظریات پر مبنی سیاست کا آخری افسانوی وزیر اعظم ‘‘ میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم اس وقت کے چیف منسٹرس شرت پوار ، ملائم سنگھ یادو اور بھیرو سنگھ شیخاوت کے ساتھ اس حساس مسئلہ پر ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے اس کی یکسوئی چاہتے تھے ۔ انہوں نے وشوا ہندو پریشد اور مسلم قائدین سے اس حساس مسئلہ پر بات چیت کرتے ہوئے ثالثی کرنے کی بھی کوشش کی تھی ۔ کہنہ مشق صحافی رام بہادر رائے کے حوالے سے جئے پرکاش نارائن نے اس کتاب میں کہا ہے کہ چندر شیکھر حکومت کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ کی آرڈیننس جاری کرنے کے ذریعہ یکسوئی کرنا چاہتی تھی ۔ اس قسم کے آرڈیننس کی تیاری کی خبر ملتے ہی اس وقت کے صدر کانگریس راجیو گاندھی اور ان کے قریبی مشیر پریشانی میں مبتلا ہوگئے ۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ چندر شیکھر اس تنازعہ کی یکسوئی کرتے ہوئے ایک بلند قامت قائد بن جائے ۔ ہری ونش نے اپنی کتاب میں مزید کہا کہ چندر شیکھر نے اپنی میعاد کے دوران جبکہ وہ وزیر اعظم تھے اس بات سے ہچکچائے نہیں کہ اس تنازعہ کی یکسوئی کیلئے دلیرانہ اقدامات کریں ۔
ان کا انوکھا لیکن بے باک رویہ تھا کہ اس مسئلہ کا مستقل حل نکل آئے اور مستقل امن قائم ہوجائے ۔ چندر شیکھر نے دونوں فریقین کے قائدین کو ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے خواہش کی کہ باہمی رضامندی کے ذریعہ اس مسئلہ کا کوئی پرامن حل تلاش کریں ۔ وہ تنازعہ کی یکسوئی چاہتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے بی جے پی کے سینئیر قائد اور اپنے دوست شیخاوت کو بھی مدعو کیا تھا ۔ انہوں نے ان دنوں برسر اقتدار تمام چیف منسٹرس کو بھی مسئلہ کی یکسوئی کیلئے دعوت دی تھی ۔ انہوں نے اس وقت کے کانگریس کے صدر اور مہاراشٹرا کے چیف منسٹر پوار کو بھی دعوت دی تھی کہ سب کیلئے قابل قبول حل تلاش کیا جائے ۔ بات چیت کے دوران تینوں چیف منسٹرس یو پی اور بی ایم ایل سی کے قائدین نے تنازعہ کی یکسوئی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے سے اتفاق کیا ۔ کیونکہ یہ ایک نمایاں اور مضبط تبدیلی تھی تاکہ تمام فریقین کو اتفاق رائے کیلئے آمادہ کیا جاسکے ۔ ایسا سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعہ ہوسکتا تھا ۔ مسلم قائدین نے مسجد کا مقام تبدیل کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی ۔ بشرطیکہ سپریم کورٹ اس کا حکم دے جو تاریخی حقائق پر مبنی ہو ۔