چوری کی سرکار بنائے بیٹھا ہے

   

ووٹ چوری نہیں ڈکیتی … راہول گاندھی کا نیا بم
وقف قانون اور سپریم کورٹ … کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش

رشیدالدین
ووٹ چوری یا ڈکیتی؟ کانگریس قائد راہول گاندھی کے تازہ انکشاف کے بعد ووٹ چوری کا لفظ چھوٹا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ یہ معاملہ چوری سے بڑھ کر ڈکیتی میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ الیکشن کمیشن اپنے عہدیداروں کے ذریعہ ووٹوں کی ہیرا پھیری کرے تو یہ معاملہ چوری کے دائرہ میں تھا لیکن اب ٹکنالوجی کے استعمال سے اپوزیشن کے ووٹ کاٹنے کا انکشاف ہوا ہے ، جسے سائبر ڈکیتی بھی کہا جاسکتا ہے ۔ جمہوریت اور دستور کا تحفظ جس کی ذمہ داری ہو، اگر وہی جمہوریت اور دستور کا خون کرنے لگیں تو عوام کس پر بھروسہ کریں گے ۔ ووٹ چوری اور ہیرا پھیری کے ذریعہ ہی الیکشن جیتنا مقصد بن جائے گا تو پھر انتخابی مہم اور انتخابی موضوعات کی کیا ضرورت ہے ۔ عوام کو درپیش مسائل کی بنیاد پر الیکشن میں ہار جیت کا تصور بھی ختم ہوجائے گا ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کا الیکشن کمیشن ، اس کی جیت یقینی ہوجائے گی۔ ایسے میں برسر اقتدار پارٹی کو شکست دینا ناممکن ہوجائے گا۔ 2014 میں نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے قیام کے بعد بی جے پی نے الیکشن کمیشن کے ذر یعہ کامیابی کا ہنر سیکھ لیا۔ ابتداء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کی گئی اور مشینوں کو ہیک کرتے ہوئے نتائج کو الٹ دیا گیا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غیر محفوظ ہونے کے بارے میں ماہرین کے ثبوت کے باوجود الیکشن کمیشن نے مشینوں کے ذریعہ ہی رائے دہی کو ترجیح دی ۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ بلکہ پسماندہ ممالک میں کہیں بھی ووٹنگ مشینوں سے الیکشن کا رواج نہیں ہے ۔ صرف ہندوستان نے مشینوں پر بھروسہ برقرار رکھا ہے کیونکہ مشین کو اپنی مرضی مطابق چلایا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور بی جے پی میں ملی بھگت کا پول کھولنا ہو تو بیالٹ پیپر کے ذریعہ ووٹنگ کو واپس لانا ہوگا۔عوام کی حقیقی رائے اور فیصلہ صرف بیالٹ پیپر کے ذریعہ ہی ظاہر ہوسکتا ہے ۔ راہول گاندھی نے الیکشن کمیشن اور ووٹ چوری کے خلاف ہائیڈروجن بم کو ابھی محفوظ رکھتے ہوئے ایک سادہ سا بم چھوڑا ہے جس کے ذریعہ ٹکنالوجی کے استعمال اور فرضی کال سنٹرس کے ذریعہ ووٹ ڈکیتی کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کئے گئے ۔ راہول گاندھی نے پہلی مرتبہ کرناٹک کے ایک اسمبلی حلقہ میں ایک لاکھ فرضی ووٹرس کی شمولیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا ۔ راہول گاندھی کے انکشافات نے عام آدمی میں یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ نریندر مودی کی تیسری مرتبہ جیت عوام کا فیصلہ نہیں بلکہ ووٹ چوری کا نتیجہ ہے ۔ کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں عوامی رجحان اور اگزٹ پول بی جے پی کے خلاف تھے لیکن جب ووٹنگ مشین کھولی گئیں تو بی جے پی کامیاب ہوگئی۔ راہول گاندھی اور ان کی ٹیم نے کئی ماہ کے ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ مہاراشٹرا، ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی کامیابی کے درپردہ راز کو فاش کردیا۔ کرناٹک کے جس اسمبلی حلقہ میں ایک لاکھ ووٹوں کی دھاندلی کے بارے میں راہول گاندھی کے ثبوتوں کا الیکشن کمیشن آج تک جواب نہ دے سکا۔ صرف رسمی طور پر تردید کی گئی اور الیکشن کمیشن کے حق میں بی جے پی قائدین میدان میں کود پڑے ۔ راہول گاندھی نے کرناٹک کے گلبرگہ ضلع کے الند اسمبلی حلقہ میں 6000 سے زائد ناموں کے ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ اخراج کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ کال سنٹر کے ذریعہ سافٹ ویر اور ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ نام فہرست رائے دہندگان سے حذف کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کی شکایت پر یہ کارروائی کی گئی ، وہ خود لاعلم ہیں۔ دسری ریاستوں کے فون نمبرات کا استعمال کرتے ہوئے ناموں کو خارج کیا گیا۔ الند اسمبلی حلقہ میں کانگریس کے تائیدی پولنگ بوتھس سے یہ نام حذف کئے گئے ۔ ابھی تو 6000 ناموں کا پتہ چلا ہے اور یہ تعداد بڑھ سکتی ہے ۔ کرناٹک سی آئی ڈی نے ووٹ چوری اور کال سنٹرس کے معاملہ کی جانچ شروع کردی ہے ۔ 18 ماہ میں سی آئی ڈی نے الیکشن کمیشن کو 18 مکتوب روانہ کرتے ہوئے تفصیلات طلب کیں لیکن آج تک کمیشن نے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن اگر ایماند ار ہے اور انتخابی عمل شفاف ہیں تو پھر تفصیلات دینے میں کس بات کا خوف ہے۔ راہول گاندھی کے انکشافات کے بعد کمیشن نے روایتی انداز میں تردیدی بیان جاری کیا جو خود تضادات پر مبنی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اعتراف کیا کہ 2023 ء میں ٹکنالوجی کے ذریعہ ووٹرس کے نام خارج کرنے کی الند اسمبلی حلقہ میں کوشش کی گئی تھی جس پر کمیشن نے ایف آئی آر درج کرائی ۔ سوال یہ ہے کہ دو برس گزرنے کے باوجود تحقیقات میں پیشرفت کیوں نہیں ہوئی۔ دراصل الیکشن کمیشن ملک میں ووٹ چوروں کی پست پناہی اور انہیں بچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ووٹ چوری بلکہ ڈکیتی کے معاملہ نے الیکشن کمیشن اور انتخابی سسٹم پر سے عوام کا اعتماد متزلزل کردیا ہے ۔ اگر حقیقی جمہوری انتخابی نظام کو بحال کرنا ہو تو عوام بالخصوص نوجوانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑ ے گا ورنہ انتخابات محض مذاق بن کر رہ جائیں گے ۔
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں۔ وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ مسلمانوں کے لئے کھلونے دے کر بہلانے کی طرح ہے ۔ وقف ترمیمی قانون کی 43 ترمیمات میں تین ترمیمات کے بارے میں سپریم کورٹ نے عبوری طور پر راحت دینے کی کوشش کی ہے اور یہ راحت بھی کب ختم ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔ ملک میں جب سے نریندر مودی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، عدلیہ کے ساتھ مسلمانوں کا تجربہ تلخ رہا ہے ۔ گزشتہ دس برسوں میں ایک بھی ایسا معاملہ نہیں جو مسلمانوں اور ان کی شریعت سے متعلق ہو اور سپریم کورٹ نے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں دیا ہو۔ بابری مسجد ، طلاق ثلاثہ ، دفعہ 370 ، گیان واپی مسجد اور تازہ ترین سنبھل کی جامع مسجد کے معاملات اس بات کے گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے عدلیہ پر مکمل اعتبار کرتے ہوئے غلطی کی ہے ۔ عدلیہ سے تلخ تجربات کی روشنی میں مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت کی برقراری تک عدلیہ سے انصاف کی امید کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس قدر تجربہ کے باوجود مسلمان سبق لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ ادھورے انصاف کی طرح ہے۔ بابری مسجد معاملہ میں مسلمانوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم عدلیہ کے کسی بھی فیصلہ کو تسلیم کریں گے ۔ عدلیہ پر بھروسہ کا نتیجہ کیا نکلا یہ دنیا کے سامنے ہے ۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے مسئلہ پر مسلمانوں کو لالی پاپ دیکر جس طرح خوش کرنے کی کوشش کی ہے، اندیشہ ہے کہ قطعی فیصلہ کے بعد عارضی راحت اور خوشی بھی ختم ہوجائے گی۔ گزشتہ 10 برسوں میں ہر اہم معاملہ میں یہی دیکھا گیا کہ پہلے خوش کردیا جائے اور پھر قطعی فیصلہ وہی ہو جو حکومت چاہے ۔ وقف ترمیمی قانون کی 43 ترمیمات میں ایک میں بھی ٹھوس راحت نہیں ملی ، باوجود اس کے مسلم قیادت کے بعض گوشے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے مسلمانوں کو خواب غفلت کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ فیصلہ کا خیرمقدم کرنے والے آخر کس کے اشارہ پر کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اگر راحت دینی تھی تو وقف بائی یوزر کی برقراری اور وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت پر روک لگانی تھی ۔ پانچ سال تک اسلام پر عمل کرنے کی شرط کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے رولز بنائے جانے تک یہ راحت دی ہے۔ حکومت کبھی بھی شرائط طئے کرے گی جس کے بعد پانچ سال اسلام پر عمل پیرا ہونے کا قانون نافذ ہوجائے گا۔ کلکٹر کے اختیارات میں بظاہر کمی کرتے ہوئے ٹریبونل اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ترجیح دی گئی ہے۔ وقف جائیدادوں کے سروے کا کام سروے کمشنر وقف کا ہے لیکن بیشتر ریاستوں میں یہ عہدہ موجود نہیں ، لہذا کلکٹر کو سروے کا اختیار رہے گا اور عہدیداروں کی رپورٹ پر ہی ٹریبونل اور ہائی کورٹ فیصلہ کریں گے ۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر کے عہدہ پر مسلم عہدیدار کے تقرر کا سپریم کورٹ نے صرف مشورہ دیا اور اسے لازمی قرار نہیں دیا ہے۔ وقف کے بارے میں مسلمانوں کا اٹوٹ ایمان ہے کہ ایک بار وقف ہمیشہ وقف رہے گا۔ یہ نظریہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد باقی نہیں رہا۔آرکیالوجیکل سروے کے تحت موجود تاریخی عمارتوں کا وقف ہونے سے متعلق موقف سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ختم ہوچکا ہے ۔ 43 ترمیمات میں 3 پر ادھورے انصاف کے ذیعہ خوش کردیا گیا جس پر جشن منانے کے بجائے مسلمانوں مکمل قانون کی واپسی کے لئے جدوجہد کی تیاری کرنی چاہئے ورنہ دیگر مقدمات کی طرح مسلمان وقف سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ عمران پرتاپ گڑھی نے تازہ سیاسی حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
شرم نہیں آتی ہے اپنے حاکم کو
چوری کی سرکار بنائے بیٹھا ہے