چوکس رہئے آگے بہت کچھ ہونے والا ہے

   

پی چدمبرم ،سابق مرکزی وزیر داخلہ
ریزرو بینک آف انڈیا کا جو مالیاتی پالیسی بیان ہے ، اس نے ایک اہم وجہ سے سرخیاں بٹوری ہیں اور غیرمعمولی طورپر چرچہ میں آیا ہے اور وہ پالیسی ریپوریٹ ہے ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ریپوریٹ کیا ہے ؟ دراصل یہ شرح سود ہے جس پر ہمارے ملک کی مرکزی بنک ( ریزرو بنک آف انڈیا ) سکیورٹیز کے عوض کمرشیل بینکوں کو رقم دیتی ہے اور یہ رقم آر بی آئی بعد کی تاریخ میں سکیورٹیز کی دوبارہ خریدی کے وعدہ کے ساتھ دے گی ۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ آر بی آئی کی جانب سے شرح سود میں کمی سے قرض حاصل کرنے والے خوش ہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنکس کم شرح پر قرض حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں کم شرح پر صارفین کو قرض دے سکتے ہیں۔ اس بات میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر Repo Rate میں اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی یا افراط زر پر نظر رکھنے والے خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ شرح مہنگائی پر قابو پانے کا ایک آلہ ہے ۔ اگر ریپوریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی تو یہ رجحان تمام Stakeholdersکو صرف اندازہ لگانے پر مجبور کرے گا ۔
گورنر اور ریپوریٹ : یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 27 مارچ 2020 ء کو ریپوریٹ میں جو 5.0 فیصد تھا اس میں کمی کرکے اسے 4.0 فیصد کردیا گیا ۔ اگر دیکھا جائے تو وہ بڑی کٹوتی تھی اور اس بنیاد پر اس کا جواز دیا گیا تھا کہ کووڈ سے متاثرہ معیشت کو کساد بازاری کے خطرہ کا سامنا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 26 ماہ تک یہ شرح 4.0 فیصد ہی رہی جب کووڈ کا اثر کم ہوا اور معیشت نے اپنی بحالی کے آثار دکھائے اس وقت مئی 2022 ء میں Repo Rate کو تیزی سے بڑھاکر 4.40 فیصد کردیا گیا۔ ظاہر ہے کہ افراط زر کی توقعات پر قابو پانے کیلئے یہ فبروری 2023 ء تک مسلسل بڑھ کر 6.50 تک پہنچ گیا ۔ جہاں یہ 20 ماہ تک اسی شرح پر قائم رہا یعنی مئی 2022 ء سے گورنر شکتی کانت داس مہنگائی پر قابو پانے والے جنگجو رہے ہیں لیکن ریپو ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا ابھی تک مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ کوئی بھی گورنر تمام Stakeholdersکو خوش نہیں رکھ سکتا ۔
یو پی اے حکومت نے گورنر کے بوجھ کو کم کرنے اور اسے بانٹنے یا شیر کرنے کی خاطر ایک مالیاتی پالیسی کمیٹی (MPC) قائم کی تھی لیکن قطعی فیصلہ ہنوز گورنر کا ہی رکھا ۔ گورنر کو ترقی ؍ نمو اور افراط زر میں توازن برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ لینا پڑے گا ۔ جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے مہنگائی اب بھی 4فیصد ہدف کی راہ پر گامزن نہیں ہے ۔ ان معاملات کو غذائی اشیاء اور فیول کی قیمتیں پیچیدہ بناتی ہیں۔ دونوں شرح سود میں تبدیلیوں پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ستمبر 2024ء میں سال بہ سال قیمتوں میں اضافہ کچھ اس طرح رہا ۔ ٹماٹر کی قیمتوں میں ( 42.4 فیصد) ، پیاز کی قیمت میں ( 66.2 فیصد ) اور آلو کی قیمت میں (65.3 فیصد ) اضافہ ہوا ۔ گورنر نے یہ جواز پیش کیا یہ دلیل دی کہ Repo Rate کو تبدیل نہ کرنے کاجواز موجود ہے۔ اس کے برعکس جو دلیل دی گئی وہ یہ ہے کہ زیادہ ریپو ریٹ کا اثر معیشت کی شرح نمو کو کم کرنے کا ہوتا ہے ۔
نمو اور مہنگائی : ترقی ؍ نمو اور مہنگائی اصل میں ریزرو بینک آف انڈیا اور حکومت کے دو بنیادی خدشات ہیں۔ شکتی کانت داس نے جاریہ سال کی متوقع 7.5 فیصد شرح نمو کے بارے میں غیرمعمولی صورت کا اظہار کیا ۔ ساتھ ہی افراط زر کی شرح بھی ظاہر کی جس کی توقع ہے کہ 4.5 فیصد مہنگائی ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی ۔ ستمبر 2024 ء میں مہنگائی کی شرح 5.49 فیصد سے زیادہ ہے۔ آل انڈیا کنزیومر فوڈ پرائس انڈکس 9.2 فیصد رہا ۔ اکٹوبر 2024 ء کو آر بی آئی کی جانب سے جاری کردہ مانیٹری پالیسی رپورٹ میں مذکورہ دونوں مضامین پر بہت کچھ کہا گیا ۔ ’’آؤٹ لک فار گروتھ ‘‘ پر حکومتی اعداد و شمار پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں کہا گیا ۔ ’’غیریقینی عالمی اقتصادی آؤٹ لک ‘‘طویل عرصہ سے جاری جغرافیائی تنازعات ( جنگ و جدال ) سپلائی چین کا بڑھتا دباؤ اور غیرمستحکم عالمی مالیاتی حالات ، تاہم منفی پہلو کے آؤٹ لک پر بہت زیادہ منحصر ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں دوسرے کئی ایک پہلوؤں اور عوامل پر بھی بات کی گئی ہے جیسے ، جیو اکنامک فریگمینٹیشن ، عالمی سطح پر طلب میں کمی اور مالیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے موسمی خلل سے متعلق تفصلی بحث کی گئی ہے ۔ آؤٹ لک فار انفلیشن پر رپورٹ میں جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں عالمی سطح پر سربراہی کا بڑھتا ہوا دباؤ ، منفی ماحولیاتی یا موسمیاتی واقعات ، بارش کی غیرمساوی تقسیم ، طویل جغرافیائی سیاسی تنازعات اور اس کے نتیجہ میں سپلائی چین میں رکاوٹیں ، غذائی اشیاء اور دھات کی قیمتوں میں اضافہ ، خام تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ وغیرہ غرض وہ دس الگ الگ منفی خطرات شامل کرتے ہیں ۔
میرے خیال میں جو چیز قریب سے دیکھی جاتی ہے اس میں اور دور سے دیکھی جانے والی چیز میں بہت فرق پایا جاتا ہے ۔ ایسے میں اوالذکر کیفیت یا نظر میکرو اکنامی کیلئے بہت اہم ہے ۔ اس کے برعکس حکومت کی معاشی پالیسی ، معاشی نمو میں گراوٹ سے عام لوگوں کی تکالیف اور اُن کی پریشانوں کا اظہارہوتا ہے ۔ عوام کی جن چیزوں پر تشویش رہتی ہے یا وہ جن چیزوں پر پریشان ہوتے ہیں ان میں بیروزگاری ، شدید مہنگائی ، تنخواہوں میں عدم اضافہ ، امیر و غریب کے درمیان بڑھتا تفاوت ، حد سے زیادہ ریگولیشن ، جی ایس ٹی اور سخت جی ایس ٹی اڈمنسٹریشن ، ناقص معیارِ تعلیم ، ایسی طبی خدمات جس کے لوگ متحمل نہ ہوں ، لاپرواہ بیورو کریسی اور ایسے سرکاری مصارف جو دولتمندوں کے موافق اور غریبوں کے مخالف ہوں ۔ مذکورہ چیزوں کے ساتھ ساتھ کئی ایسی چیزیں ہیں جو عوام کیلئے اور ملک کی معیشت اور اُس کے نمو کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر مشرق وسطیٰ میں جاری ہلاکت خیز جنگ ، یہ جنگ کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ اسی طرح روس ۔ یوکرین کی جنگ میں NATO کے رکن ممالک کود پڑسکتے ہیں۔ منی پور ، مہاراشٹرا میں حیرت انگیز نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ چین اور تائیوان یا جنوبی کوریا ، شمالی کوریا Hot Spot بن گئے ہیں۔ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوسکتے ہیں ، ایسے میں برائے مہربانی اپنے سیٹ بیلٹ مضبوطی سے باندھ لیں کیونکہ آگے بہت ہنگامے ہونے والے ہیں۔