چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش، راجستھان میںکامیابی کے بعد مودی کے حوصلے بلند

   

نیلم پانڈے
بی جے پی نے پچھلے اتوار کو مدھیہ پردیش، چھتیس گڈھ اور راجھستان اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ہیٹ ٹرک کی، اسی شام وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑی خوشی سے کہا کہ یہ انتخابی نتائج 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی ہیٹ ٹرک کی ایک گیارنٹی ہے۔ مذکورہ تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو واضح اکثریت سے کامیابی ملی ہے ( جبکہ کانگریس قائدین یہ الزام عائد کرنے لگے ہیں کہ ای وی ایمس میں چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور انھیں بدلا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ان قائدین نے کہا ہے کہ خود کانگریس امیدواروں کے گاؤں میں انھیں 50 سے زائد ووٹ نہیں ملے اس کا کیا مطلب ہے، اس کا مطلب یہی ہے کہ ای وی ایمس میں گربڑ کی گئی ہے ) ۔ بی جے پی نے نہ صرف مدھیہ پردیش میں اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے اور وہ بھی شاندار کامیابی کے ساتھ، کانگریس سے چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی ریاستیں بھی چھین لی ہیں ۔ اتوار کی شام دہلی میں بی جے پی ہیڈ کوارٹرس میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپوزیشن کو تخریبی سیاست اور ایسی سیاست کرنے کے خلاف خبردار کیا جو ملک کو توڑتی ہو ( راہول گاندھی نے تو بھارت جوڑو یاترا شروع کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ ہم یعنی کانگریس ملک کو جوڑنے اور بی جے پی ملک کو توڑنے کی بات کرتی ہے، اکثر کانگریسی قائدین بی جے پی کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ کانگریس ملک جوڑ رہی ہے بی جے پی ملک توڑ رہی ہے )۔
وزیر اعظم جو بلند بانگ دعوؤں اور بڑی بڑی باتوں کیلئے مشہور ہیں چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش اور راجھستان میں بی جے پی کی کامیابی کو ان سیاسی جماعتوں کیلئے سبق قرار دیا جو غریبوں کیلئے شروع کردہ مرکزی حکومت کی اسکیمات کی راہ میں حائل ہوتی ہیں یا رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ مودی کے مطابق بی جے پی اور مرکزی حکومت کی مخالف پارٹیوں کو سنبھل جانا چاہیئے ورنہ عوام انہیں ختم کردے گی اور انہیں اُکھاڑ پھینکیں گی۔ بہر حال مودی کے مطابق ہندوستان کے رائے دہندے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مفاد پرستی کا شکار خود غرض کون ہے اور بے غرض کون ہے؟ اور ملک و قوم کے حق میں کیا بہتر ہوتا ہے۔ مودی نے اپنے خطاب میں کانگریس کو زیادہ تر نشانہ بنایا (کیونکہ راہول گاندھی اور دوسرے کانگریس قائدین مسلسل مودی جی کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے جارہے ہیں اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آج ملک میں مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جارہا ہے ) مودی کے مطابق یہ انتخابی نتائج کانگریس کیلئے بھی بڑا سبق ہے اور اس کے مغرور اتحاد کیلئے بھی سبق ہے۔ مسٹر مودی دراصل اپوزیشن اتحاد انڈیا کا حوالہ دے رہے تھے۔ اتوار کو کانگریس نے جس واحد ریاست میں کامیابی حاصل کی وہ تلنگانہ ہے جہاں اس نے کے چندر شیکھر راؤ کی بھارت راشٹرا سمیتی (BRS) حکومت کو اقتدار سے بیدخل کیا۔ وزیر اعظم اپنے خطاب میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ موروثی سیاست یا خاندانی سیاست کرنے والی جماعتوں نے ملکر گھمنڈ پر مبنی اتحاد تو بنالیا اور ایک شہ نشین پر ساتھ بھی بیٹھ رہے ہیں‘ دیکھنے میں وہ اچھا دکھائی دیتا ہے لیکن وہ اتحاد عوام کا بھروسہ جیت نہیں پائے گا۔
اب جبکہ 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اعلان کردیا گیا، اب کانگریس صرف تین ریاستوں ہماچل پردیش، کرناٹک اور تلنگانہ تک محدود ہوکر رہ گئی اور ایک طرح سے وہ شمالی ہند کے سیاسی نقشہ سے تقریباً غائب ہوگئی حالانکہ شمالی ہند میں پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں اور 2024 کے عام انتخابات سے پہلے کانگریس کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے برعکس شمالی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی نے اپنا دبدبہ برقرار رکھا۔ حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی کیلئے جو حوصلہ افزاء بات رہی وہ تلنگانہ میں اس کے 8 ارکان اسمبلی کا انتخاب ہے۔ نریندر مودی یہ بھی کہتے ہیں کہ2047 میں ہندوستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا اور ملک کا ہر شہری یہی چاہتا ہے کہ ہندوستان ترقی کرے، عوام نے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ جیسے نعرہ کا ساتھ دیا ہے اور مذکورہ ریاستوں میں یہ نعرہ بھی کامیاب ہوا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بی جے پی خواتین کے وقار کی ضمانت ہے ( جبکہ یہی وزیر اعظم نریندر مودی کی مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومت تھی جس نے گجرات کی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے ارکان خاندان بشمول اس کی تین سالہ بیٹی کے بہیمانہ قتل کرنے والے مجرمین کو سزاء مکمل ہونے سے پہلے ہی رہا کردیا ) وزیر اعظم بار بار ناری شکتی کی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے مطابق بی جے پی نے پچھلے دس برسوں کے دوران خواتین کی بہبود کیلئے دیانتداری کے ساتھ کام کیا مثلاً انہیں بیت الخلاء ، بجلی و گیس، نل کا پانی اور بینک اکاؤنٹس جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کی۔ مودی جی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک بھر میں قبائیلیوں نے چاہے وہ چھتیس گڈھ، مدھیہ پردیش یا راجھستان ہو کانگریس کے خلاف ووٹ دیا ہے کیونکہ کانگریس نے 60 برسوں سے قبائلی برادری کو پسماندگی کے جال میں جکڑ رکھا تھا ( یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ چھتیس گڈھ اور مدھیہ پردیش میں انتخابات سے قبل قبائلی پوری طرح کانگریس کی تائید میں تھے لیکن نتائج اس کے برعکس آئے، اس بارے میں کانگریس قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ قبائلیوں کی تائید و حمایت نہیں بدلی بلکہ ای وی ایمس بدل گئے گئے )۔