غضنفر علی خان
ان دنوں بی جے پی کے صفحہ اول کے قائدین میں ایک نیا ذہنی مرض پیدا ہوگیا ہے جس کے جراثیم وائیرل ہوگئے ہیں۔ مرض یہ ہے کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے لے کر امیت شاہ اور امیت شاہ سے لے کر کئی اہم بی جے پی قائدین و لیڈرس ہر کام کیلئے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اب اس مرض کا کیا علاج ہوسکتا ہے اس کے لئے بی جے پی اور آر ایس ایس کو خود سوچنا ہوگا۔ اصل مرض یہ ہے کہ بی جے پی خود کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی، اب اس کے لئے یہی کام باقی رہ گیا ہے کہ ماضی بعید اور ماضی قریب کی حکومتوں کی عیب جوئی کرے۔
آج ہندوستان ترقی پذیر ملک ہوچکا ہے، آزادی سے پہلے ہماری صنعتیں کم و بیش ناپید ہوچکی تھیں، زرعی پیداوار کا بہت بُرا حال تھا۔ آزادی کی یہ تحریک خود اس معاشی و صنعتی بدحالی میں چلائی گئی تھی نہ کوئی بڑی صنعتیں قائم تھیں اور نہ زرعی پیداوار کے معاملہ میں ہم خودکفیل تھے۔اجناس کو درآمدکیا جاتا تھا، انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوستان کا خون چوس چوس کر کم و بیش ایک ڈھانچہ بنادیا تھا۔ اُن بہادر ہندوستانیوں کا عزم تھا کہ انھوں نے اُس برطانوی راج کو ختم کردیا جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی اور ممالک میں اس کی کالونیاں قائم تھیں۔ قومی رہنما مہاتما گاندھی نے اپنے ملک کیلئے آزادی کی تحریک چلائی اور اس غربت میں انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، آنجہانی سردار ولبھ بھائی پٹیل ، لال بہادر شاستری اور دیگر لیڈرس کی مدد سے بالآخر ملک کو آزادی دلوائی۔ آج جس ترقی یافتہ بھارت دیش پر بی جے پی حکومت کررہی ہے وہ کسی علاء الدین کے چراغ کی مدد سے نہیں ہے بلکہ سینکڑوں و ہزاروں ہندوستانیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، نہ تو تحریک آزادی کی کشمکش میں آج چیخ چیخ کر اپنی دیش بھکتی کا دعویٰ کرنے والے یہ بی جے پی کے لیڈر تھے اور نہ انہوں نے کسی اور طریقہ سے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا، بھلا ایسے لیڈرس سے کیا پوچھا جائے کہ آزادی کی ہم نے کتنی بھاری قیمت ادا کی۔ آزادی کے سورما اس طرح پھانسی کے پھندے کو اپنی گردنوں میں لٹکا لیتے تھے جیسے کوئی پھانسی کا پھندا نہیں بلکہ یہ گلے کا ہار ہے۔
جنگ آزادی کے سورماؤں میں پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے کئی قائدین موجود تھے لیکن آزادی کی تاریخ میں کہیں بھی آج کے بی جے پی یا آر ایس ایس کے لیڈرس کا نام نہیں ملتا، نہ صرف ان بے غرض لیڈروں نے بلکہ ہمارے علماء کرام کی بڑی جماعت آزادی کی دہکتی ہوئی آگ میں کود پڑی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا نام کون نہیں جانتا، دینی درسگاہیں ایک لحاظ سے آزادی کے متوالوں کی پناہ گاہ بنادی گئی تھیں۔ علماء کرام کا تحریک آزادی میں جو کردار رہا اُس سے فرقہ پرست بی جے پی جیسی پارٹی واقف ہی نہیں تھی۔ اگر تاریخ آزادی کا کہیں ذکر ہوتا ہے تو ان مسلم قائدین کی جانی اور مالی خدمات کو یکسر بھلادیا جاتا ہے۔ یہ آزادی متحدہ ہندوستان نے حاصل کی تھی ۔ آزادی صرف ہندوؤں یا صرف مسلمانوں کی جدوجہد کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ساری ہندوستانی قوم کا نصب العین تھی۔
بے شک آزادی کے فوری بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ملک کی باگ ڈور 16 برس سنبھالی۔ وہ ایسے ہندوستان کے وزیر اعظم تھے جو وسائل و ذرائع میں کچھ بھی نہ تھے۔ ایک ایسا ہندوستان تھا جس کے نقشہ میں کانگریس کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نہرو جی نے رنگ بھرا ۔ انہوں نے ہی ملک کی معاشی ترقی کے لئے پنج سالہ منصوبہ بنایا، یہ جواہر لعل نہرو کا تدبر ہی تھا کہ انہوں نے یہی ہندوستان کو ترقی دی جس کے لئے آج ہر اعتبار سے ہر دیہات، ہر گاؤں اور ہر شہر جگمگارہا ہے۔ بڑے زعم سے وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کے چیلے امیت شاہ سینہ ٹھونک ٹھونک کر ملک کی ترقی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کا ترقی یافتہ ہندوستان کس نے وجود میں لایا، کس نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ پنڈت نہرو نے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے، اُس دور میں دنیا کا نقشہ بھی کچھ اور ہی تھا۔ دنیا دو بڑی طاقتوں میں منقسم تھی‘ ایک طرف امریکہ بڑی طاقت اور دوسری طرف سابق سوویٹ یونین ( روس ) تھا، دنیا کے دیگر تمام ممالک معاشی اعتبار سے کمزور ممالک جانے جاتے تھے ان دونوں بڑی طاقتوں میں بٹ گئے تھے یا ان دونوں میں سے کسی ایک دھڑے میں شامل ہوگئے تھے۔ بڑی دوربینی سے کام لیتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک بڑا گروپ بنایا تھا جس کو ساری دنیا غیر جانبدار ممالک کا گروپ تصور کرتی تھی۔ اس غیرجانبدار گروپ میں کئی ممالک شامل ہوگئے ۔ یہ تصور کہ ساری دنیا روس اور امریکہ کے شعبہ قدرت میں نہیں رہ سکتی تھی بلکہ انہیں بھی اپنے وسائل سے استفادہ کرنے کا حق ہے۔ غیر جانبدار ممالک کے اس گروپ کی تشکیل میں وزیر اعظم نہرو کا ساتھ یوگوسلاویہ کے سابق صدر مارشل کیٹو اور مصر کے صدر عبدالناصر نے بڑھ چڑھ کر دیا۔ بڑی طاقتوں کے گروپ ٹوٹ گئے اور غیر جانبدار ممالک ایک تیسری طاقت کی حیثیت سے اُبھرے ۔
ایک لحاظ سے پنڈت جواہر لعل نہرو نے براعظم ایشیاء، یورپ، مشرق وسطیٰ غرض ساری دنیا کے ممالک میں ایک نیا شعور پیدا کیا کہ وہ کسی بڑی طاقت کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔اس تحریک نے بڑی جِلا پائی اور آج اُس کا وجود برائے نام رہ گیا ہے۔یہ خود ہندوستان کا اور اس کے سابق وزیر اعظم نہرو کا ایک عظیم الشان کارنامہ تھا، فرق صرف یہ ہے کہ پنڈت جی نے اپنے سے پہلے کے لیڈروں سے کبھی گلہ وشکوہ نہیں کیا، وہ ہندوستان کے بارے میں سوچتے تھے اور عملاً کچھ کردکھاتے بھی تھے۔ آج کے لیڈرس کی طرح ملک کو درپیش مسائل کیلئے سابق حکمرانوں خاص طور پر انگریزوں کو ذمہ دار نہیں قراردیئے کیونکہ اُن کا اپنا ایک ویژن تھا ، اس میں وسعت پذیری تھی، عقل و دانش، بالغ النظری کا جوہر بھی شامل تھا۔ پنڈت نہرو یہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی بقاء اسی صورت میں ہوگی جبکہ ساری ہندوستانی قوم متحدہ ہو۔ بی جے پی کے لیڈرس کی طرح وہ ملک کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں نہیں بانٹتے تھے۔ آج تو ہر قدم پر حکمران طبقہ یہی سوال کرتا ہے کہ مسلمانوں نے کیا کیا۔ پنڈت نہرو اپنے ملک کے بارے میںبندھی ٹکی باتوں کے قائل نہیں تھے، اُن کو سب سے پہلے ملک کی فکر لاحق تھی۔ وہ روایتی ہندوستان کو ایک عظیم الشان صنعت یافتہ ملک بنانا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے نئے ہندوستان کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ محض خواب و خیال کی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ اس زمین کے مسائل کو حل کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے مسائل کو بڑے سلجھے ہوئے انداز سے حل بھی کیا۔ ان کی دوربینی کا عالم یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ کو بڑی گہرائی اور انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے تھے اور اس کا کوئی نہ کوئی علاج بھی ڈھونڈ ا کرتے جو موجودہ حکمرانوں ، سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ پنڈت نہرو کے بارے میں یہ سچ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ سیاستدان اور ملک کے وزیر اعظم نہ ہوتے تو بھی اُن کی عظمت کو بحیثیت ایک تاریخ داں یا مؤرخ کی طرح تسلیم کیا جاتا۔ اگر یہ بھی نہ ہوتا تو وہ انگریزی ادب کے ایک بے حد معروف نثر نگار کی حیثیت سے جانے و پہچانے جاتے ۔ اب اِن بلندیوں کو چھونے والے پنڈت نہرو کو اپنی بے جا اور گمراہ کن تنقیدوں کا شکار بنانے والے بی جے پی کے لیڈرس اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ عظمت ایک ایسا وصف ہے جو کسی ، کسی انسان میں وودیعت کیا جاتا ہے ، ہر کوئی پنڈت نہرو نہیں ہوسکتا، ہر کسی کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکتی جو پنڈت جی کو حاصل رہی۔ وہ جب تک زندہ تھے ، عوام میں بے حد مقبول رہے ، اُن کو اس بات کا ملال ہوتا تھا کہ کیوں میرے لئے سیکوریٹی فراہم کی گئی ہے، وہ عوام میں رہتے تھے ، عام آدمی کی طرح زندگی گذارتے تھے اور مسائل پر اُسی طرح غور و فکر کیا کرتے تھے جس طرح ملک کے عام آدمی کیا کرتے ہیں۔ ان صفات کو پہلے اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے بعد پنڈت جی پر تنقید کریں۔ یہ وہ اُصول ہیں جن پر کاربند ہوکر بی جے پی کی حکومت اور اس کے وزیر اعظم اورو زیر داخلہ امیت شاہ اگر کچھ کرسکیں تو ہندوستانی عوام اُن کو بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے گی۔ جس طرح آج بھی پنڈت جی کے گذر جانے کے اتنے برس بعد بھی اُن کو عوام اپنا لیڈر مانتی ہے۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہوگا جبکہ بی جے پی کے لیڈرس پنڈت جی پر تنقیدیں کرنا چھوڑ کر کچھ ٹھوس و تعمیری کام کردکھائیں گے۔٭
