حکومت کے اچانک فیصلہ سے محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کو بھی مشکلات کا سامنا
حیدرآباد۔2مارچ(سیاست نیوز) اسکول میں چھٹویں تا آٹھویں جماعت کے طلبہ کے لئے تعلیم کا آغاز کئے جانے کی وجوہات کے متعلق کئے جانے والے سوالات کا ریاستی محکمہ تعلیم کے عہدیدارو ںکے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اس سلسلہ میں دریافت کئے جانے والے سوالات کے کوئی جواب دیئے جا رہے ہیں بلکہ محکمہ تعلیم کے بعض عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اس فیصلہ سے وہ خود بھی اتفاق نہیں کرتے لیکن سیاسی آقاؤں کے احکامات کے آگے ان کی سفارشات اور تجاویز کوئی معنی نہیں رکھتی نظر آرہی ہے۔ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے بتایا کہ نویں اور دسویں جماعتوں کی باضابطہ تعلیم کے آغاز کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے محکمہ تعلیم کی جانب سے ماہرین تعلیم کی رائے حاصل کرتے ہوئے جو تجاویز حکومت کو روانہ کی گئی تھیں ان میں مابقی جماعتوں کیلئے باضابطہ تعلیم کے آغاز کی مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جاریہ تعلیمی سال کے دوران آن لائن تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے آئندہ تعلیمی سال سے ہی باضابطہ تعلیم کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جانے چاہئے تاکہ خانگی اسکولوں کو فیس کیلئے ہراسانی کا موقع نہ ملے اور طلبہ کی آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رہے ۔ریاستی حکومت کی جانب سے اچانک چھٹویں تا آٹھویں جماعت کے طلبہ کیلئے باضابطہ کلاسس کے انعقاد کے سلسلہ میں خود محکمہ تعلیم کے عہدیداروں کا کہناہے کہ اس فیصلہ سے انہیں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور والدین کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہونے لگی ہیں۔عہدیداروں نے بتایا کہ برسراقتدار سیاسی قائدین کی جانب سے کئے گئے اس فیصلہ کو خانگی اسکولوں کی جانب سے حکومت پر ڈالے جانے والے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جا رہاہے ۔محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے بتایا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے خانگی اسکولوں اور سرکاری اسکولوں میں چھٹویں تا آٹھویں جماعت میں باضابطہ تعلیم کے آغاز کے فیصلہ کے باوجود والدین اور سرپرستوں کی جانب سے اپنے بچوں کو اسکول روانہ کرنے سے گریز کیا جا رہاہے اور حاضری کے فیصد میں کوئی اضافہ نہ ہونے سے یہ واضح ہورہا ہے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔