روش کمار
حالیہ عرصہ کے دوران شیئر مارکٹ میں زبردست اُتار چڑھاؤ دیکھا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں سرمایہ کاروں کو ہزاروں کرڑوں روپئے کا نقصان ہوا ہے اور جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ اگر آپ شیئر مارکٹ میں اپنی جمع پونجی ڈوب جانے سے پریشان ہیں ، بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے ، راتوں کو نیند نہیں آرہی ہے، نوکری نہیں مل رہی ہے اور مل گئی تو تنخواہ بہت کم ہے ، جو برسوں سے نوکری کررہی ہیں اُن کی تنخواہیں نہیں بڑھ رہی ہیں وہ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ اس طرح سے بازار ڈوبتا رہا کمپنیوں کی مارکٹ قدر سکڑتی رہی تو کمپنیاں اور بھی تنخواہیں نہیں بڑھائیں گی بلکہ اُن کی نوکریوں پر پھر سے خطرہ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ملازمین کو فارغ کرنے کا عمل شروع ہوجائے گا ۔ اس طرح کی تمام فکروں میں ڈوبے لوگوں سے میرا کہنا ہے کہ کمبھ میں ڈبکی لگائیے ! اب آپ فکروں میں ڈبکی بالکل نہ لگائیں ۔ اس طرح کی رپورٹ پڑھکر بالکل نہ گھبرائیں کیونکہ پریشانی کی اس گھڑی میں وزیراعظم نریندر مودی بالکل نہیں گھبراتے ! 5 ماہ میں 93 لاکھ تا 94 لاکھ کروڑ سے زیادہ کی رقم ڈوب جائے تو اس کی دہشت سرخی میں بھلے جھلکتی ہو لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے چہرے پر نہیں۔ پیر کی صبح جب آپ مارکٹ میں لال اور سبز اور پھر لال رنگ دیکھ کر ہائے ہائے کررہے تھے اس وقت وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے گیربن میں شیروں کی تصاویر لے رہے تھے ۔ آخر عالمی یوم جنگلاتی حیات بھی تو اہم ہے ۔
جنگلاتی حیات کا لباس سفاری رینجر ہیٹ اور ہاتھ میں کیمرہ بڑے بڑے بحرانوں کے درمیان تناؤ سے پاک رہنے کا اس سے بڑا کوئی کام کیا ہوسکتا ہے ۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملک میں 93 لاکھ کروڑ کے ڈوبنے کو لیکر چیخ و پکار مچی ہے ۔ پی ایم کتنے پرسکون ہیں ، ایک دم پریشان نہیں ، یہی اس وقت کا راشٹر جذبہ ہوناچاہئے نہ کہ بازار ڈوب گیا ہائے ہائے کی چیخ و پکار مچنا چاہئے ۔ شیر کی تلاش میں وزیراعظم کے چہرے پر ایک سکون ہے ۔ آج ملک کو اسی سنجیدگی کی ضرورت ہے ۔
وزیراعظم فیشن کو لیکر بھی فراخدلانہ پیغام دے رہے ہیں جو بات سفاری رینجر ہیٹ میں ہے وہ بات اس وقت کسی ہندوستانی ٹوپی کے پہننے میں نہیں آسکتی ۔ اس لئے ہر وقت نہ تو ہائے ہائے کیجئے نہ جنگلاتی تہذیب کے منافی کام کیجئے ۔ منڈے بلوز کو لیکر رونے والا متوسط طبقہ کیوں نہیں سوچا کہ پیر کو سفاری پر بھی نکلا جاسکتا ہے ؟ وزیراعظم کی اتنی تعریف پوری پوری ستائش صرف میں کرسکتا ہوں ، گودی میڈیا کے بس کی بات نہیں لیکن کانگریس ترجمان سپریہ شرنپٹے نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور کہدیا کہ وزیراعظم نریندر مودی شمبھو شکاری بن گئے ہیں۔ سپریہ شرنپٹے لکھتی ہیں کہ شمبھو شکاری بنے نریندر مودی کے پاس جنگل سفاری تک جانے کا وقت ہے لیکن منی پور نہیں جائیں گے ۔ ویسے کیا یہ سیر سپاٹا بھی ’’کبھی چھٹی نہیں لیتے ہیں‘‘ والے جملہ میں شمار کیا جائے گا ۔ وزیراعظم نریندر مودی بھلے سفاری میں جانے کے ، ساحل سمندر فوٹوگرافی کرنے کیلئے چھٹی نہیں لیتے لیکن یہ سچ ہے کہ وہ ان چیزوں کو بھی کام کی طرح کرتے ہیں ۔
ان پروگرامس میں ان کی سنجیدگی دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وزیراعظم مودی چھٹی پر ہیں ۔ آپ دیکھئے سفاری کے دوروں کے موقع پر بھی مودی کتنے سنجیدہ لگ رہے ہیں ، سنجیدگی بے مثال ہے ، یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ 3 مارچ کی ہی خبر ہے کہ ہندوستان کا مینوفیکچرنگ شعبہ سست پڑگیا ، 14 ماہ میں سب سے نیچے آگیا ۔ HSBC انڈیا کے مینوفیکچرنگ پرچیزنگ منیجرس انڈیکس رپورٹ کے ذریعہ یہ بات سامنے آئی ۔ بتایا گیا ہے کہ نئے آرڈر بند ہوگئے ہیں ، پیداوار کم ہوگئی ہے ۔ یہ سب اچھا نہیں مانا جاتا ۔ مودی حکومت کے دس برسوں کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر کو لیکر زیادہ تر اسی طرح کی خبریں آتی رہی لیکن اس سے وزیراعظم نریندر مودی کبھی فکر مند نہیں دکھائی دیئے ۔ اتوار کو ہی وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے وقت نکال کر سومناتھ مندر میں پوجا ارچنا کی ۔
پہلے کے وزیراعظم اس جھوٹ کی تشہیر کرتے تھے کہ پی ایم کے پاس یکدم وقت نہیں ہوتا ، وزیراعظم کا ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے ۔ شکر ہے کہ وزیراعظم مودی نے پی ایم کے وقت کو نئے سرے سے متعارف کروایا ہے ۔ وائلڈ لائف کی ترقی صرف فیصلوں سے نہیں ہوتی پوجا ارچنا بھی ہندوستان میں نجی اور اجتماعی طریقہ کار رہا ہے۔ ہفتہ کو بھی بزیراعظم نریندر مودی نے کام کیا چھٹی نہیں لی ۔ شام کو دلی میں جہانِ خسرو میں حصہ لیا ۔ پیر کو سفاری اور اتوار کو پوجا اور ہفتہ کو دلی میں جہانِ خسرو کے کارواں میں جاکر صوفی سنگیت کا لطف اُٹھانا کوئی وزیراعظم نریندر مودی سے سیکھے ۔ اس رینج کا میں بہت قائل ہوچکا ہوں ۔
جہانِ خسرو میں وزیراعظم نے کتنی خوبصورت بات کہی کہ ہندوستان جنت کا باغیچہ ہے جہاں تہذیب کا ہر رنگ پھلا پھولا ہے ۔ اس سے ٹھیک 5 دن پہلے وزیراعظم نریندر مودی باگیشور دھام گئے ۔ کینسر اسپتال کے شیلا پوجا میں حصہ لیا ۔ نفرتی زبان استعمال کرنے والے دھریندر شاستری کے کینسر کے اسپتال میں اُن کا حصہ لینا خطاب کرنا کتنا اہم کام ہے ۔ وہاں بھی انھوں نے ملک کیلئے کام کیا اور اپنے ٹویٹ میں لکھا بھی کہ باگیشور دھام میں بالاجی سرکار کے درشن پوجن کااعزاز ملا ۔ ان سے ملک کے باشندوں کی ترقی و خوشحالی کی پرارتھنا کی ۔ بہرحال ملک کے شیئر مارکٹ میں گراوٹ جاری ہے ۔ ہم اس شک کو دور کررہے ہیں کہ وزیراعظم مودی نے بازار کے سرمایہ کاروں کو ان کے حال پر چھوڑدیا کبھی وہ خود پیسے لگانے کے ٹپس دیا کرتے تھے لیکن کسی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی جن کلیان کی فکر نہیں کررہے ہیں تو وہ غلط ہے ۔ 2014 ء سے پہلے عوام پریشان ہوتی تھی تو حکومت بھی پریشان ہوجاتی تھی اور میڈیا تو اس سے بھی زیادہ پریشان ہوجاتا تھا لیکن یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ عوام کتنی بھی پریشان ہوجائے اب حکومت پریشان نہیں ہوتی ۔ ایسی خبروں سے وزیراعظم مودی کو پریشان اور فکرمند بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سو کروڑ لوگوں کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دوسرا ضروری سامان کے خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہے اس لئے کمپنیوں کے مال نہیں فروخت ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت خراب ہے اور شیئر بازار میں کہرا م مچا ہوا ہے ۔ آپ کا پیسہ شیئر بازار میں ڈوب رہاہے ۔ اس کا اثر ملک کے وزیراعظم پر بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ انھیں مذہبی ، ثقافتی اور سیر و تفریح کے پروگراموں میں حصہ لینا چاہئے ۔ آپ ہمیں فالتو میں کہے جارہے ہیں کہ 1400 پوائنٹس نیچے آگیا 200 پوائنٹس نیچے آگیا ، Nifty 22 ہزار کے نیچے جارہا ہے !
ان سب کچھ فکروں میں پھنسے ہوئے ہیں ! مت پھنسئے ! بلکہ آپ سرمایہ کار پہلے پہلے میری ایک بات کا جواب دیجئے کیا آپ بھی قوم پرستی کے چکر میں پھنس کر بازار کی طرف بھاگے تھے ۔ سچ سچ بتائیے گا کیونکہ مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ درآمدات کیلئے ملکی سرمایہ کار کیوں پھنسے رہ گئے ۔ اس ایک لائن سے شیئر بازار کا حال سمجھانا چاہتا ہوں ملکی سرمایہ کار کیوں پھنس گئے ۔ ان کا اس بازار میں بھروسہ اور اُن کی اپنی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر بنایا ماحول بنانے والے تنتر کی بنیاد پر ؟ بازار کے گرنے کے کئی ایک وجوہات کی ہر دن تلاش کی جارہی ہے ۔ میں اس بات کی تلاش کررہا ہوں کہ اس میں ہندو راشٹر واد کا کتنا کردار تھا ؟ کیا یہ صحیح ہے کہ مودی حکومت کو پروموٹ کرنے کیلئے مارکٹ میں ہندو راشٹر واد کے رنگ میں رنگا پورا تنتر ترقی یافتہ ہوگیا ہے ۔ مارکٹ گرو وزیراعظم سے ملکر فوٹو کھنچواتے رہتے ہیں جس سے اشارہ ملتا رہے کہ پیسہ کی ترقی وہاں ہورہی ہے ۔ اپنے گرو بازار کا نمبر دکھاکر مودی حکومت کی تعریف کرنے لگے اور سرمایہ کے لوگ اس بازار کو دکھاکر آپ کو خواب دکھانے لگے۔
پہلے تین خبریں دیکھئے اور سمجھئے کہ کیسے جب بازار چڑھتا ہے تو سرخی میں مودی نام کا موتی مالا میں پرو دیا جاتا ہے۔ 3 جون 2024ء کے بزنس ٹو ڈے کا یہ مضمون دکھانا چاہتا ہوں اس کی ہیڈلائنز کہتی ہیکہ 13 شیئرس ایسے ہیں جن میں ایک لاکھ لگانے پر منافع 8 کروڑ روپئے تک کا ہوا ہے ۔ 10 ہزار فیصد قدر میں اضافہ ہوا اور یہ سب مودی سرکار کی دوسری معیاد یعنی 2019-24 کے درمیان میں ۔ ٹائمز آف انڈیا کی 31 مئی 2024 ء کی رپورٹ سے انتخابی موسم میں الگ الگ PSU کے حصص نے جملہ 7 لاکھ روپئے کا پیسہ جوڑا اس پر رپورٹ لکھتے ہوئے اخبار نے ہیڈلائین دی کہ کیا یہ مودی کا میڈاس ٹچ ہے ؟ یعنی کیا مودی کا کمال ہے کہ جو چھوتے ہیں وہ سونا بن جاتا ہے ۔
8 فبروری 2024 ء کو نکھیل اگروال کی ایک رپورٹ دکھانا چاہتا ہوں ہیڈ لائن میں ہی ہے مودی کی گیارنٹی ، PSU اسٹاکس پر مودی کی گیارنٹی تحریک عدم اعتماد کے جواب میں وزیراعظم مودی کے خطاب کے بعد 22 اسٹاکس کو زبردست فائدہ ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ 24 کروڑ روپئے کا فائدہ ہوا ۔اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم مودی کی جن سرمایہ کاروں نے TIPS کو اپنایا وہ ہنستے ہوئے بنک جارہے ہیں۔
10 اگسٹ 2023 ء کو وزیراعظم مودی نے PSU حصص کے بارے میں کہا تھا کہ ان پر داؤ لگادیجئے 6 ماہ میں یہ 66 فیصد بڑھ گئے اور قریب 24 لاکھ کروڑ روپئے کا منافع دے چکے ہیں ۔ اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا سوال ہے تو ٹھیک کیا اب بازار کی طرف اس لئے بھی بھاگے کہ ہندو راشٹرا کا تنتر ماحول بنارہا تھا ۔ وزیراعظم مودی کمپنیوں میں پیسہ لگانے کیلئے Tips دے رہے تھے ۔ گرو منتر بتارہے تھے اور ان کے ارکان پارلیمان وہاں بیٹھ کر تالیاں بجارہے تھے۔ مودی نے پارلیمنٹ میں کچھ یوں کہا ’’آپ جانتے ہیں ایل آئی سی کے بارے میں کہا گیا تھا ایل آئی سی ڈوب گئی ۔ غریبوں کا پیسہ ڈوب گیا ، غریب کہاں جائے گا ؟ بیچارہ نے بڑی محنت سے پیسہ ڈالا ہے ۔ یقینا وہ کہہ سکتے تھے کہدیا لیکن آج LIC لگاتار مضبوط ہورہی ہے ۔ شیئر مارکٹ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے بھی یہ گرو منتر ہے جو سرکاری کمپنیوں کو لوگ گالی دیں تو آپ اس میں داؤ لگادیجئے اچھا ہی ہوگا ۔ جن لوگوں نے مودی کی باتوں پر بھروسہ کرکے LIC میں پیسہ لگایا اُنھیں وزیراعظم سے پوچھنا چاہئے کہ LIC کا اسٹاک پچھلے 6 ماہ میں 31 فیصد نیچے آگیا ہے ۔