دائیں بازو کے بڑھتے اثر کا نتیجہ
رام پنیانی
ملک بھر میں پچھلے گیارہ بارہ برسوں سے دائیں بازو کی سیاست کو زبردست فروغ حاصل ہوا اور اس سیاست کے منفی اثرات مرتب ہوئے، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دائیں بازو کی سیاست کے عروج کا اندازہ حال ہی میں پیش آئے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں ہندوستان کی تاریخ کے پہلے بدھسٹ اور دوسرے دلت چیف جسٹس آف انڈیا مسٹر بی آر گوائی پر کمرہ عدالت میں جوتا پھینکا گیا۔ اکٹوبر 2025ء میں ایڈوکیٹ راکیش کشور نے وہ جوتا پھینکا۔ اُس واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ مذکورہ ایڈوکیٹ نے مفاد عامہ کی ایک درخواست دائر کرتے ہوئے ہندوؤں کے بھگوان وشنو کی مورتی کے علیحدہ سر کو جوڑنے (بحال کرنے) کی التجاء کی تھی۔ یہ مورتی کھجوراہو کی مندروں میں سے ایک مندر میں موجود ہے جس پر جسٹس بی آر گوائی نے کہا تھا کہ یہ معاملہ مفاد عامہ کا نہیں ہے بلکہ سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک شخصی کوشش ہے۔ ایسے میں درخواست گذار کو عدالت سے رجوع ہونے کی بجائے محکمہ آثار قدیمہ سے رجوع ہونا چاہئے یعنی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو جانا چاہئے یا پھر خود وشنو کی مورتی سے کہنا چاہئے کہ اپنی مورتی کا سر بحال کرے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کے ان ریمارکس پر راکیش کشور برہم ہوگیا۔ چیف جسٹس پر جوتا پھینکنے کے بعد راکیش کشور نے خود کہاکہ بھگوان وشنو اس کے خواب میں آئے اور ایکشن لینے کی ہدایت دی اور اس وجہ سے اس نے چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکا۔ اگر ہم اس واقعہ پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں دلتوں کی کیا حالت ہے اور ان کے ساتھ کس طرح کا معاندانہ سلوک کیا گیا۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا جسٹس بی آر گوائی کی ماں کو مہاراشٹرا ودربھا علاقہ کے ایک شہر میں منعقدہ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا لیکن انھوں نے آر ایس ایس کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ وہ امبیڈکر کے اُصولوں پر چلنے والی خاتون ہیں اور اسی وجہ سے وہ سنگھ کی سرپرست تنظیم کے پروگرام میں شرکت نہیں کرسکتیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندو راشٹرا سے متعلق آر ایس ایس کا ایجنڈہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے سب واقف ہیں۔ جسٹس گوائی کی والدہ محترمہ کی طرح ایسے بہت سارے مرد و خواتین ہیں جو یقینا بابا صاحب امبیڈکر کو یاد کرتے ہیں۔ یہ وہی بابا امبیڈکر تھے جنھوں نے اس بنیاد پر قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی کہ اس سے ہندو راج اور ہندو راشٹر (ہندو ملک) کی راہ ہموار ہوگی اور جب ایسا ہوگا تو یہ ملک کے لئے ایک آفت ہوگی، ایک سانحہ ہوگا۔
(امبیڈکر، پاکستان یا ہندوستان کی تقسیم نامی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن) ایک طرف ایڈوکیٹ راکیش کشور نے بھرے کمرہ عدالت میں چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکا تو دوسری طرف ایک مشہور سوشل میڈیا انفلوینسر اجیت بھارتی نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کیا۔ جب میڈیا یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی تب اس کا کہنا تھا کہ حکومت ہماری ہے، نظام ہمارا ہے۔ اجیت بھارتی نے 7 اکٹوبر کی شام دیر گئے ہندی میں یہ پوسٹ کیا۔ اس سے کچھ دیر پہلے ایک اور پوسٹ میں کچھ یوں لکھا ’’اگر سارا سسٹم میرے خلاف ہو، میں ڈرنے یا گھبرانے والا نہیں اور نہ ہی اپنے گھر سے باہر جانے والا ہوں بلکہ گھر پر ہی کافی، بھنے ہوئے بادام اور کاجو کے مزے لوٹ رہا ہوں گا‘‘۔ اس کے کہنے کا صاف صاف مطلب یہی تھا کہ کوئی بھی اُسے گرفتار نہیں کرسکتا۔ اُس کے خیال میں سارا سسٹم میرے ساتھ ہے اور یہ جو سسٹم (حکومت اور اس کی پالیسیاں ہیں) وہ ہمارے نظریات ہمارے خیالات پر مبنی ہے۔ ہاں اختلاف رائے کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن ہم سب ایک ہیں، ایک تھے اور ایک رہیں گے۔ میں آپ تمام کا مشکور و ممنون ہوں ’’جے ایس آر‘‘۔
بہرحال چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوائی نے ان پر جوتا پھینک کر ساری عدلیہ کی توہین کا ارتکاب کرنے والے ایڈوکیٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے عہدیداروں سے کہاکہ وہ اس واقعہ کو نظرانداز کردیں اور اپنے کام کو آگے بڑھائیں۔ واقعہ کو خلفشار کا نکتہ نہ بنائیں۔ ساتھ ہی انھوں نے غیرمعمولی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی ہدایت دی کہ کشور کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے جبکہ پولیس نے کشور کے خلاف جو کارروائی کی، وہ یہ تھی کہ اسے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور بات چیت کے بعد پولیس نے نہ صرف اسے اس کا جوتا واپس کیا بلکہ خود کشور کو بھی گھر بھیج دیا۔ اب مختلف مقامات پر کشور کے خلاف ایف آئی آر درج کی جارہی ہیں۔ جہاں تک اجیت بھارتی کا سوال ہے اُسے بھی پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا جہاں اس کی گرما گرم چائے سے تواضع کی گئی اور پھر اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ذرا تصور کیجئے کہ چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے کے ناخوشگوار واقعہ میں اگر کوئی مسلم نام کا حامل فرد ملوث ہوتا تو اس کے خلاف این ایس اے اور تمام قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جاتے اور اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جاتی۔ جہاں تک وشنو بھگوان سے اپیل کرنے سے متعلق چیف جسٹس آف انڈیا کے ریمارکس کا سوال ہے، اس بارے میں سوشل میڈیا پر کافی کچھ کہا گیا، ہنگامہ برپا کیا گیا، نازیبا و غیر شائستہ الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ چیف جسٹس کے ریمارکس سناتن دھرم کی توہین ہے یہاں تک کہ راکیش نے چیختے چلّاتے ہوئے کہا ’’سناتن کا اپمان، نہیں سہے گا ہندوستان (سناتن کی توہین ہندوستان برداشت نہیں کرے گا) دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان کا نعرہ خود ایسے الفاظ سے شروع ہوتا ہے ’’فخر سے کہو ہم ہندو ہیں‘‘ لیکن اب لفظ ہندو کی بجائے رائٹ ونگ کے پرچم بردار کے طور پر سناتن استعمال کیا جارہا ہے۔ ویسے بھی آر ایس ایس کے قیام کی سب سے اہم وجہ ہندو راشٹرا کا قیام ہے اور آر ایس ایس نے اپنے قیام سے ہی خود کو ہندوتوا قوم پرستی کے مشعل بردار کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس نے ہمیشہ سے یہی چاہا کہ زمینداروں کے اتحاد اور اعلیٰ ذات والوں کے ہاتھوں کئے جارہے اپنے استحصال سے متعلق دلتوں میں شعور پیدا نہ ہوپائے۔ اسی وجہ سے آر ایس ایس نے ذات پات کے نظام، ذات پات کے ورنا سسٹم کی نہ صرف وکالت کی بلکہ اسے برقرار بھی رکھا۔ آر ایس ایس کے ابتدائی نظریہ سازوں نے منو سمرتی کے اقدار کو پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور آج آر ایس ایس یہ کام بڑی چالاکی سے کرنے لگی ہے جہاں ایک طرف وہ یہ کہتی ہے کہ تمام ذات پات والے مساوی ہیں اور دوسری طرف جہاں تک اس کی پالیسیوں کا تعلق ہے وہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بڑے پیمانہ پر دلتوں پر مظالم ڈھائے جائیں اور دلتوں کو سماجی سطح پر حاشیہ پر لایا جائے یعنی ان کی تباہی و بربادی کے سامان کئے جائیں۔ دلتوں کو حاشیہ پر لانے انھیں ان کے حقوق سے محروم کرنے، انھیں ڈرانے دھمکانے کے واقعات میں 2014ء سے اُس وقت شدت پیدا ہوگئی جب بی جے پی کو عام انتخابات میں اپنے بل بوتے پر واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ دلتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ 2014ء میں جب سے بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت اقتدار میں آئی ایسے جرائم کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھنے لگی (دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف 2018ء میں جرائم کی تعداد بالترتیب 27.3 فیصد اور 20.3 فیصد اضافہ درج کی گئی۔ ممتاز اسکالر آنند تپل تومدے کی جانب سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق چیف جسٹس بی آر گوائی پر حملہ ایک ایسے وسیع تر سماجی پیاٹرن کو ظاہر کرتا ہے جہاں ذات پات پر مبنی تشدد وہ بھی رسمی مبادات کے درمیان پایا جاتا ہے ہمارے ملک میں ہر سال دلتوں پر 55 ہزار سے زائد مظالم کے واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ ہر دن اوسطاً چار دلتوں کا قتل کیا جاتا ہے اور 12 دلت خواتین و لڑکیوں کی عصمت ریزی کی جاتی ہے اور ریاست اس طرح کے گھناؤنے جرائم کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ہم نے پولیس کا رویہ بھی دیکھا ہے۔ مسٹر مودی دلتوں پر مظالم کے واقعات پر کچھ نہیں کہتے۔ اگر اگر ٹوئٹ بھی کرتے ہیں تو بڑے ہی نرم انداز میں کرتے ہیں۔ دلتوں کے قتل، ان کی عصمت ریزی اور ان پر ظلم و جبر کے واقعات میں ملوث مجرمین کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اس طرح وہ ایک طرف خود کو دلتوں کا ہمدرد اور دوسری طرف اعلیٰ ذات والوں کے ساتھ ہونے کا بھی اظہار کرتے ہیں۔