چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات

   

Ferty9 Clinic

بڑی طاقت ہے جو چیف جسٹس کے دفتر کو غیر کارکرد کرنا چاہتی ہے ‘ عدلیہ کی آزادی کو سنگین خطرہ ۔ جسٹس رنجن گوگوئی کا رد عمل
نئی دہلی 20 اپریل (سیاست ڈاٹ کام ) چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کے خلاف آج جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں جس کے نتیجہ میں انہوں نے فوری اس معاملہ کی غیر معمولی سماعت کا بھی اہتمام کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازم کے الزامات ناقابل یقین ہیں اور یہ کسی بڑی طاقت کی سازش کا حصہ ہیں تاکہ چیف جسٹس کے دفتر کو غیر کارکرد کیا جاسکے ۔ سپریم کورٹ کی سابق ملازم نے گوگوئی کے دہلی گھر کے دفتر میں کام کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ گذشتہ سال اکٹوبر کا ہے ۔ اس کے الزامات سے عدلیہ میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔ گوگوئی نے کہا کہ وہ ان الزامات کی تردید کرنے کی سطح تک بھی نہیں گر سکتے ۔ عدالت نمبر 1 میں اس معاملہ کی ہنگامی سماعت کا بھی اہتمام کیا گیا اور سہ رکنی بنچ کے سربراہ خود گوگوئی تھے ۔ کچھ میڈیا چینلس میں اس معاملہ کی خبریں پھیلائے جانے پر عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملہ کو میڈیا کی فراست پر چھوڑتی ہے کہ وہ اس میں تحمل کا مظاہرہ کرے ۔ تاہم کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے ۔ ایک سہ رکنی خصوصی بنچ کا جسٹس گوگوئی کی قیادت میں قیام عمل میں لایا گیا جبکہ خاتون نے ایک حلفنامہ داخل کیا تھا جس کی نقول سپریم کورٹ کے 22 ججس کے گھر روانہ کی گئی تھیں اور یہ منظر عام پر بھی آگئیں۔ حکومت یا کسی بڑی سیاسی جماعت نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ عدالت میں اس معاملہ کی 30 منٹ تک سماعت ہوئی جس دوران گوگوئی نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اب انتہائی سنگین خطرہ میں ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف جنسی ہراسانی کے بیجا الزامات عائد کئے گئے ہیں کیونکہ کوئی بڑی طاقت ہے جو چاہتی ہے کہ چیف جسٹس کے دفتر کو غیر کارکرد کردیا جائے ۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کونسی بڑی طاقت ہے جس کا وہ حوالہ دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس خاتون کا مجرمانہ پس منظر ہے اور اس کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوں وہ سپریم کورٹ کی ملازم کس طرح ہوسکتی ہے عدالت نے کہا کہ عدلیہ کو بلی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا اور میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس خاتون کی حلفنامہ اس کی سچائی معلوم کئے بغیر شائع نہ کیا جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ایسے وقت ابھارا گیا ہے جب ان کی قیادت والی ایک بنچ آئندے ہفتے کئی حساس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرنے والی ہے اور اب لوک سبھا انتخابات آخری مراحل میں پہونچنے والے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان مقدمات کی وضاحت نہیں کی جن کی سماعت ہونے والی ہے ۔ اس بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ارون مشرا اور جسٹس سنجیو کھنہ شامل ہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس تنازعہ کے پس پردہ ایک بڑی طاقت ہے جو نظام عدلیہ میں عوام کا اعتماد متزلزل کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔‘ حالانکہ چیف جسٹس اس بنچ کی قیادت کر رہے ہیں لیکن انہوں نے خود کو اس پر کسی بھی عدالتی حکمنامہ کی اجرائی سے دور کرلیا ہے ۔ حکمنامہ میں جسٹس مشرا نے کہا کہ اس مسئلہ کی سماعت کے بعد ہم فی الحال کوئی حکمنامہ جاری نہیں کرتے اور یہ میڈیا کی فراست پر چھوڑتے ہیں کہ تحمل کا مظاہرہ کریں ۔ ذمہ داری سے کام کریں اور خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہئے اور کیا نہیں۔