مدھیہ پردیش میں جو کام مسلم ججوں نے نہیں کیا وہ ہندو جج نے کردیا، ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کو اعتراض
نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سریش کمار کیت کی سرکاری رہائش گاہ سے ایک مندر ہٹائے جانے پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے اس پر سخت اعتراض جتایا ہے۔ وکلاء کی تنظیم نے اس معاملہ میں اب ملک کے چیف جسٹس (سی جے آئی) جسٹس سنجیو کھنّہ سے اپیل کی ہے۔ بار اسوسی ایشن نے سی جے آئی کھنّہ کو خط لکھ کر اس معاملہ کی جانچ کرنے اور اس واقعہ کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی جے آئی کو لکھے گئے خط کے مطابق، ایم پی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ میں تاریخی ہنومان مندر تاریخی تھی۔ وہاں ہائی کورٹ کے کئی سابق چیف جسٹس پوجاپاٹ کیا کرتے تھے، جن میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ہیمنت گپتا بھی شامل رہے ہیں۔ یہ سبھی لوگ بعد میں ترقی پاکر سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ ان کے علاوہ چیف جسٹس کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرنے والے کئی ملازمین بھی مندر میں پوجا کیا کرتے تھے۔ شکایتی خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس کیت سے پہلے اس سرکاری رہائش گاہ میں کئی مسلم چیف جسٹس بھی رہے لیکن ان لوگوں نے نہ تو اس پر اعتراض جتایا اور نہ ہی اسے ہٹوایا۔ پھر اب اسے کیوں ہٹایا گیا؟ خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس رفعت عالم اور جسٹس رفیق احمد بھی بطور چیف جسٹس اسی رہائش گاہ میں رہے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس مندر پر کوئی اعتراض نہیں جتایا تھا۔ بار اینڈ بنچ کی بار اسوسی ایشن نے سی جے آئی کو لکھے اپنے خط میں کہا کہ چیف جسٹس کا بنگلہ اور اس بنگلہ میں مندر یعنی دونوں سرکاری جائیداد ہیں۔ کئی بار اس مندر کی تعمیر نو بھی سرکاری فنڈ سے کی گئی ہے۔ اس لیے، حکومت کی اجازت کے بغیر یا کسی قانونی حکم کے بغیر اسے منہدم نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بنگلہ میں سناتن دھرم کو ماننے والے بیشتر چیف جسٹس اور ملازمین رہتے رہے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنی مذہبی پوجا کیلئے دور جا کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا پڑ تا تھا۔ ایسا عمل سناتن دھرم کے پیروکاروں کی توہین ہے۔ بار اسوسی ایشن کی جانب سے خط لکھے جانے سے پہلے وکیل رویندر ناتھ ترپاٹھی نے صدر، وزیر اعظم، سی جے آئی اور مرکزی قانون وزیر کو شکایتی خط لکھ کر اس مسئلہ پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سریش کمار کیت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر اب ایم پی ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے سی جے آئی کو خط لکھا ہے۔ ترپاٹھی کی شکایت کے مطابق مندر کمپلیکس میں طویل عرصہ سے قائم ہنومان مندر کو جسٹس کیت نے منہدم کروا دیا ہے۔
انہوں نے شکایت میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ ان کی نجی جائیداد نہیں ہے، اور انہیں ایسا کرنے کا حق نہیں تھا۔ ان کی شکایت کے مطابق، اب ایک دیگر وکیل نے چیف جسٹس کے عمل سے متاثر ہو کر ریاست بھر کے پولیس تھانوں سے تمام مندروں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک عوامی مفاد کی عرضی دائر کی ہے۔ تین مہینے پہلے ہی سپریم کورٹ کالجیم نے دہلی ہائی کورٹ کے سینئر جج رہے سریش کمار کیت کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا۔ ان سے پہلے جسٹس سنجیو سچدیوا ایم پی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ کیت ہریانہ کے کیتھل ضلع کے رہائشی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ میں رہتے ہوئے جسٹس سریش کمار کیت نے جامعہ تشدد اور سی اے اے مخالف جیسے کئی اہم معاملات کی سماعت کی ہے۔