روش کمار
وزیراعظم نریندر مودی نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی رہائش گاہ پہونچ کر وہاں گنیش پوجا میں حصہ لیا جس پر اپوزیشن جماعتوں اور ہندوستان کے سیکولرازم و جمہوریت پر یقین رکھنے والوں نے شدید تنقید کی اور وزیراعظم کے اس عمل کے پیچھے کارفرما اغراض و مقاصد پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ بعض نے اسے سستی شہرت کا ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے گھر وزیراعظم نریندر مودی کے جانے کا 29 سیکنڈ کا ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے۔ یہ ویڈیو آپ تمام نے دیکھ بھی لیا ہوگا۔ وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے اس کی تصاویر بھی ٹوئٹ کی ہیں کہ وہ چیف جسٹس کے گھر گئے تھے۔ نریندر مودی ڈاٹ اِن ویب سائٹ پر تو اس ملاقات کی دس تصاویر ہیں۔ وزیراعظم کے یو ٹیوب چیانل پر بھی 29 سیکنڈس کا یہ ویڈیو موجود ہے۔ کئی صحافیوں نے بھی اسے ٹوئٹ کیا ہے یعنی انہیں بھی دیا گیا ہوگا۔ اگر اس میں کچھ چھپانے والی بات ہوتی تو وزیراعظم خود سے ویڈیو اور تصاویر کیوں جاری کرتے؟ لیکن اس میں بتانے والی بات کیا ہے؟ بار بار اس سوال سے ٹکراتا رہا کہ جس بات میں چھپانے کیلئے کچھ نہیں اس میں بتانے والی بات کیا ہے؟ بات صرف اتنی ہی نہیں یہ بھی ہے کہ اس میں کہنے والی بات کیا ہے۔ جب سب کچھ دکھائی دے رہا ہے تو کہنا بھی کیا ہے۔ آپ بھی اس ویڈیو کو دیکھئے کیا آپ کو پتہ چلتا ہے کہ بتانے والی بات کیا ہے؟ یا آپ کو لگتا ہے کہ تیج تہوار میں لوگ ایک دوسرے کے گھر جاتے ہی ہیں اس میں کہنے والی بات کیا ہے۔ چیف جسٹس سماج میں تو رہتے ہیں جہاں لوگوں سے ملنا جلنا رہتا ہی ہے اس بات میں دم تو ہے ہم بھی تو جاتے ہیں جو پسند نہیں ان کے گھر بھی جاتے ہیں جو مخالف سوچ و فکر کے حامل ہیں ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ جاکر اچھا بھی لگتا ہے کیا اتنی سی ہی بات ہے یا کچھ اور اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے کیا آپ کو کچھ اور بھی لگ رہا ہے مگر کہہ نہیں پارہے ہیں۔ مجھے اُلجھن سی ہورہی ہے کہ کہوں تو کیا کہوں! کیا اس تصویر کو قومی سیاست کے پس منظر میں دیکھنا مناسب رہے گا۔ یہ سب تو کہا ہی جاسکتا ہے لیکن کچھ تو ہے کہ نہیں کہہ پارہا ہوں۔ کئی سال سے لگاتار کچھ کہنے کا تجربہ ہے لیکن پھر بھی بات کیوں کہہ نہیں پارہا ہوں جو کہنا چاہتا ہوں۔ کہنے سے پہلے وہ بات واضح کیوں نہیں ہوپارہی ہے جسے کہنا چاہئے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی مخمصہ میں پڑ گیا ہوں اور زمین کے ڈولنے سے گھنٹیاں آپس میں زور زور سے ٹکرا رہی ہیں۔ کیا یہ ویڈیو آپ کو بھی اُلجھن میں مبتلا کررہا ہے، نظروں کو دھندلا کررہا ہے یا صاف کررہا ہے؟ پر یہ بتائے کہ کہنے کی جرأت پر یہ ویڈیو بوجھ سا بن گیا ہے۔ ٹھیک ٹھیک آپ بھی کیوں نہیں پکڑ پارہے ہیں کہنے کی جرأت کی کمی ہے یا کہنے کی ساری سرحدوں کو پار کرچکی ہے کیا آپ کو بھی ایسا لگ رہا ہے جو مجھے لگ رہا ہے۔ 2018 ء میں منو بٹیسن نے لائیو لا کیلئے ایک مضمون لکھا جسٹس وی ڈی تلزا نے کہا تھا کہ اگر سیاسی لیڈروں کے انتخابات جیتنے پر جج گلدستہ بھیجنے لگ جائیں اور مکتوب لکھنے لگ جائیں تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔ اندرا گاندھی کے دور میں لکھے گئے اس مکتوب کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ جسٹس تلزا نے جسٹس پی این بھگوتی پر طنز کیا تھا۔ جسٹس پی این بھگوتی نے اندرا گاندھی کو لوک سبھا کا انتخاب جیتنے پر مبارکبادی کا مکتوب لکھ ڈالا، بعد میں پی این بھگوتی چیف جسٹس بھی بنائے گئے۔ 15 جنوری 1980 ء کو جسٹس پی این بھگوتی نے یہ مکتوب اندرا گاندھی کو لکھا، تب بار کونسل کے کئی ارکان نے ان کے اس مکتوب کی مذمت کی تھی۔ یہ مکتوب ابھینو چندر چوڑ نے اپنی کتاب سپریم ویپرس میں شامل کیا۔ اس واقعہ کو ملک کی عدلیہ کی تاریخ میں سب سے شرمناک بتایا گیا تھا۔ منو بٹیسن نے پی این بھگوتی کی یہ مثال میگھالیہ ہائیکورٹ کے جسٹس ایس آر سین کے ایک فیصلہ کے تناظر میں دی۔ اپنے فیصلہ کے دوران جسٹس ایس آر سین نے لکھ دیا کہ صرف ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم مودی جی ہندوستان کو اسلامی ملک بننے سے روک سکتے ہیں۔ جسٹس ایم آر شاہ نے کہہہ دیا کہ مودی میرے ہیرو ہیں، وہ ایک ماڈل ہیں۔ لائیو لا میں منو بیٹین نے لکھا ہے کہ اس کے بعد وہ پٹنہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے اور پھر سپریم کورٹ کے جسٹس بھی بنائے گئے۔ اس مضمون میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایچ ایس کپاڈیہ کا ایک بیان ہے کہ ججس کو سنت کی طرح رہنا چاہئے، انھیں سیاسی لیڈروں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے ان سے قربت اختیار کرنے سے بچنا چاہئے مگر ان کی یہ بات سننے والا کوئی نہیں۔ سوربھ داس ایک نوجوان صحافی ہیں۔ سپریم کورٹ کے معاملوں میں جس تیاری اور مہارت کے ساتھ رپورٹ کرتے ہیں، حالیہ دہوں میں انھیں کورٹ کا بہترین صحافی بناتا ہے۔ اپنی رپورٹنگ میں سوربھ داس مسلسل عدالت کے معاملے میں رپورٹنگ کی سرحدوں کو توڑتے جاتے ہیں بڑھاتے جاتے ہیں وہ بات کہتے ہیں جو کوئی نہیں کہتا کہنے کا خطرہ ہر دن اُٹھاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کون سا کیس کس جج کے پاس جائے گا اس عمل کو روسٹر کہتے ہیں اور ماسٹر آف روسٹر چیف جسٹس کہے جاتے ہیں۔ سوربھ داس نے ماسٹر آف روسٹرس کو لے کر رپورٹ کردیا اور تنقید کردی۔ چیف جسٹس نے کوئی بدلہ لے لیا ہو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ سوربھ داس نے چیف جسٹس چندرا چوڑ کے گھر مودی کے جانے سے متعلق ویڈیو کو دیکھ کر ٹوئٹ کیا اور کئی ایک واقعات کے سہارے جس طرح سے کہا ہے کیا آپ اس طرح سے کہنا چاہیں گے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ خود کہنے سے اچھا شائد محفوظ طریقہ بھی ہے۔ اس لئے سوربھ نے جو کچھ کہا ہے اسے ہی دہرادوں۔ اُنھوں نے کہا ’’ہندوستان میں آپ جانتے ہیں کسی کو پھنسانا جیل میں ڈال دینا اور برسوں تک بناء ضمانت کے جیلوں میں سڑا دینا سب سے آسان کام ہے اور اس کام کو کرنے والے عہدہ دار کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کا حوصلہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔ یہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کئی بار لگا کہ کیا اس کی وجہ سے نہیں کہہ پارہا ہوں۔ ہر بات میں عمر خالد اور گلفشاں فاطمہ کو کیوں یاد کیا جائے لیکن کیوں یاد نہیں کیا جائے؟ آپ کی زندگی کو برباد کرنے کی طاقت دوسروں کے پاس اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچاتے رہنے کا اب کوئی مطلب نہیں۔ سوربھ نے فصیح و بلیغ انگریزی میں اتنا کیوں لکھا؟ کیا ہندی کا کوئی صحافی ایسا نہیں لکھ سکتا ہے۔ پھر یہ ہندی ہے کس لئے؟ کیا ہندی صرف ہندی ہندی کرنے کے لئے ہے یا کچھ کہنے کے لئے بھی ہے۔ اس نوجوان صحافی نے لکھا ہے کہ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں بننے والے چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور تحت کی عدالت کے ہر جج کو اس سے خطرناک پیغام جاسکتا ہے۔ اس ایک قدم سے چیف جسٹس نے اپنی وراثت سے کہیں زیادہ بڑی چیز کو جوکھم میں ڈال دیا ہے۔ اس تنقیدی تبصرہ کو پڑھنے کے بعد ہی لگا کہ کیا سوربھ داس نے وہ بات کہہ دی جو میں کہنا چاہتا تھا لیکن ایسا بھی نہیں۔ مجھے اب بھی لگ رہا ہے اس سے الگ یا زیادہ جو کہنا چاہتا ہوں لیکن کہہ نہیں پارہا ہوں۔ اس کی وجہ ڈر بالکل نہیں وجہ ہے وہ بات جسے اس طرح اتنی صفائی سے کہی جائے کہ ویڈیو کو دیکھتے ہوئے جو نا کہنے کا پتھر ہے وہ سینے سے ہٹ جائے۔ سوربھ داس نے لکھا ہے کہ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان جو دوری بنی رہنی چاہئے اس کی خطرناک طریقہ سے خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسے ایسا بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب ندی کی لہر کنارے کی مٹی کو دھیرے دھیرے کاٹتی ہے اچانک ایک دن مٹی کا کنارا کھیت کا کھیت پانی کی لہروں میں گر جاتا ہے۔ حکومت اور عدالت کو الگ الگ کناروں پر ہونا چاہئے کیوں کہ سپریم کورٹ میں حکومت کے خلاف سینکڑوں مقدمات ہوتے ہیں۔ اب اگر وزیراعظم اور چیف جسٹس ایک دوسرے کے گھر پر ملنے لگ جائیں گے تو پھر اس مٹی کے کٹاؤ کو کون دور کرسکتا ہے لیکن اس پر سوال مٹی تو نہیں کرے گی ندی کی لہریں تو نہیں کریں گی۔ اسے دیکھنے والا شہری، صحافی، جج اور وکیل یہ سب کریں گے یا اسے یوں ہی بہنے دیا جائے؟ سوربھ داس نے مودی اور چیف جسٹس کے ویڈیو کو دیکھتے ہوئے لکھا کہ آج کی رات ملک بے چین کردینے والے اس ویڈیو کو دیکھ رہا ہے۔ یہ ویڈیو ایک ایسے چیف جسٹس کے گھر سے آیا ہے جو عدلیہ کی پاکیزگی کو اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ آج انھوں نے بے حد خطرناک اشارہ دیاہے اس کے آگے سوربھ نے عدلیہ کی ایمانداری کو لے کر جو لکھا ہے اسے دہراتے ہوئے بھی ہاتھ اور لب کانپ رہے ہیں۔ دماغ اس میں اُلجھا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے یا ایسا نہیں ہوسکتا پھر کیوں سوربھ داس نے یاد دلایا کہ چیف جسٹس کا کام عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کرنا ہے یاد دلاتے رہنا غلط تو نہیں ہے پھر بھی جب مجھے سوربھ داس کی اس بات کو دہرانے میں گھبراہٹ سی ہورہی ہے تو گنپتی کے سامنے کھڑے ان دو لوگوں کو کیا ایسی گھبراہٹ نہیں ہوئی ہوگی۔ ہندوستانی دیوی دیوتاؤں کی داستانوں میں ان کے انصاف کے ساتھ کھڑے رہنے کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ دستور کے آنے سے بہت پہلے انصاف کا اہم ذریعہ دھرم (مذہب) ہی رہا اور اس دھرم کے دیوی دیوتا بلکہ آج بھی صحیح اور غلط کا پیمانہ سماجی زندگی میں مذہب سے بھی آتا ہے۔ لوگ بات بات میں کہہ دیتے ہیں کہ بھگوان سے ڈرا کرو، اگر سوربھ داس کی بات صحیح ہے پھر بھی ایک بار پوچھنا تو بنتا ہی ہے کہ دیوی دیوتاؤں کو گواہ بناکر ایسا کیا کہا جاسکتا ہے کیا کسی کو بھگوان سے بھی ڈر نہیں لگے گا؟ 2018 ء میں سواتی چترویدی کی رپورٹ یاد ہوگی، سواتی نے لکھا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی سپریم کورٹ ایک پروگرام میں شرکت کیلئے گئے اور اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی سے اچانک اُنھوں نے کہہ دیا کہ وہ کورٹ نمبر 1 دیکھنا چاہتے ہیں جس میں چیف جسٹس کی بنچ لگتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی تاریخ میں کسی وزیراعظم نے ایسا نہیں کہا تھا۔ اس وقت چیف جسٹس کے کورٹ میں حکومت ہند کے خلاف کئی بڑے معاملات چل رہے تھے۔ رفال سودے کا معاملہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے سپریم کورٹ کے 75 سال ہونے پر ایک پروگرام ہوا، اس میں مودی اور چیف جسٹس کے علاوہ دیگر جج صاحبان بھی موجود تھے۔ تب کسی نے کسی قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا، کوئی بھی اُلجھن کا شکار نہیں ہوا، کسی کو بھی نہیں لگا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ تمام موقع میں جو دونوں ملتے ہیں۔ بہرحال ان دونوں کی ملاقات سے کئی ایک سوالات اُٹھ رہے ہیں اور وہ بھی سنگین سوالات، سیاستدانوں کا چیف جسٹس سے قربت اختیار کرنا عدلیہ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے، کئی ویب سائٹس پر اس طرح کے خیالات ظاہر کئے گئے۔