چینی تاجرین ٹرمپ کی ٹیرف جنگ کے خلاف ڈٹ گئے

,

   

چھوٹے سے لیکر بڑے تاجرین کا یہی کہنا ہے کہ ان کے پاس متبادل ممالک موجود ہیں
بیجنگ : ہمیں یہ فکر نہیں کہ ہمیں اپنی مصنوعات صرف امریکہ کو ہی فروخت کرنی ہیں۔ یہ کہنا ہے ہو تیاگچنگ کا جن کی کھلونوں کی دکان ہے۔ اور جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو ان کی دکان میں موجود ایک کھلونا جنگی طیارہ ہمارے سر کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ ان کی دکان میں موجود کھلونوں کی آوازوں میں ان کی بات سننے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ یہ تمام کھلونے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے چل رہے تھے۔ ہو تیاگچنگ کی ڑیاچنگ ٹوائز نامی دکان دنیا کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹوں میں سے ایک میں ہے جو چین کے ایک چھوٹے سے شہر ییوو میں قائم ہے۔ اس ہول سیل مارکیٹ میں 750000 سے زائد دکانیں ہیں جہاں خریدار چمکتی کرسمس لائٹس اور کچن کے سامان سے لے کر چھتریوں اور مساج گن تک ہر چیز کی تلاش میں آتے ہیں۔ دن کا زیادہ تر وقت صرف مارکیٹ کے ایک حصے کو دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے پاس اتنا سامان موجود ہے جتنا ہوائی اڈے پر طیاروں کے لیے بنے ہینگر میں پورا آ جائے۔ ییوو چین کے مشرقی ساحلی صوبہ زی جیانگ کا شہر ہے۔ اس صوبے کو چین کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے یہاں 30 سے زیادہ بندرگاہیں ہیں پچھلے سال امریکہ کو ہونے والی تمام چینی برآمدات کا 17 فیصد یہاں سے گیا تھا۔ امریکہ چین تجارتی جنگ میں ییوو اور یہ صوبہ فرنٹ لائن پر سمجھا جا رہا ہے۔ کھلونا طیاروں، سٹف ٹوائز اور موٹر سائیکل پر سوار سپائڈرمین سمیت طرح طرح کے کھلونے کے ڈھیر میں بیٹھے ہو تیاگچنگ بھی اس تجارتی تنازع میں فرنٹ لائن پر آ گئے ہیں۔ چین نے سال 2024 میں 34 ارب ڈالر کے کھلونے برآمد کیے تھے۔ اس میں سے تقریباً 10 ارب ڈالر مالیت کے کھلونے صرف امریکہ بھیجے گئے۔ لیکن اب ان چینی برآمدات پر امریکہ نے 245 فیصد تک محصولات عائد کر دی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ وہ بیجنگ کو عالمی منڈی پر بہت زیادہ حاوی ہو جانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن چین کے خلاف ٹرمپ کی پہلی تجارتی جنگ جس کا آغاز 2018 میں ہوا تھا کے بعد سے یہاں چیزیں بدل گئی ہیں۔ اس نے ییوو جیسے شہر کو ایک سبق سکھایا تھا جس کا خلاصہ ہو نے کچھ یوں کیا کہ ‘دوسرے ممالک کے پاس بھی پیسہ ہے!’ یہ جارحانہ اقدام دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین میں ایک جانا پہچانا موضوع بن گیا ہے۔ جو ٹرمپ کے ایک اور ہنگامہ خیز دور صدارت کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ بیجنگ جو دنیا کو بار بار بتاتا رہا ہے کہ امریکہ دیگر ممالک سے دھونس کے ذریعہ تجارتی مذاکرات کر رہا ہے، ابھی تک امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے نئے ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد ملک میں آن لائن پراپیگنڈہ نے زور پکڑا ہے جس میں ٹرمپ کی طرف سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے برعکس چینی جدت اور سفارت کاری کی تعریف کی گئی ہے۔ ملک کے انتہائی کنٹرول شدہ سوشل میڈیا پر چینی قیادت کے اس وعدے سے متعلق بہت سی پوسٹس دکھائی دیتی ہیں کہ چین اس کے خلاف لڑتا رہے گا۔