محمد ریاض احمد
پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد ہندوستانی فوج نے پاکستان کے کم از کم 9 علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور اُن کی بنیادی سہولتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جس میں بقول ہمارے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ 100 سے زائد دہشت گرد مارے گئے ۔ مودی حکومت نے پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں پر حملوں کے بارے میں پاکستان کو پیشگی اطلاع بھی دی ، اس بات کا انکشاف وزیر اُمور خارجہ ایس جئے شنکر نے خود کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف مقامات سے پاکستان کیلئے جاسوسی کرنے اور آئی ایس آئی کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں بے شمار افراد کو گرفتار کیاگیا ہے جس میں سی آر پی ایف کا ایک اہلکار سوتی رام جاٹ اور یوٹیوبر جیوتی ملہوترہ شامل ہیں۔ فی الوقت دونوں این آئی اے کی تحویل میں ہیں ، اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو حساس دفاعی معلومات فراہم کرنے کی پاداش میں جاسوسوں کو گرفتار کیا گیا ایسے میں پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیکس کی پیشگی اطلاع دینے والوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جانا چاہئے ؟ کیا اس طرح کے اعتراف پر عوام اُنھیں شاباشی دے ؟
بہرحال پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کے بعد مودی حکومت آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی 125 سرفہرست تجارتی تنظیموں نے پاکستان کی تائید و حمایت کرنے اور اُسے اسلحہ فراہم کرنے والے ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف محاذ کھولدیا ، ان دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے پر زور دیا یہاں تک کے ہندوستانی سیاحوں سے کہا گیا کہ وہ ترکیہ اور آذر بائیجان کی سیر و سیاحت نہ کریںاور ہندوستانی فلم انڈسٹری پر بھی زوردیاگیا کہ ترکیہ اور آذربائیجان میں فلموں کی شوٹنگ نہ کریں تاکہ ان دونوں ملکوں کے سیاحتی شعبوں کو نقصان پہنچاکر ان کی معیشت پر وار کیا جائے۔ جہاں تک ترکیہ اور آذر بائیجان کے ساتھ ہندوستان کی باہمی تجارت کا سوال ہے یہاں ہم اس کا جائزہ لیں گے ۔ آپ کو بتادیں کہ اپریل 2024 ء تا فبروری 2025 ترکیہ کو ہندوستان کی درآمدات 5.2 ارب ڈالرس جبکہ 2023-24 میں یہ درآمدات 6.65 ارب ڈالرس کی رہی ۔ اس کے برعکس ترکی سے ہندوستان کو درآمدات 2.84 ارب ڈالرس مالیتی درج کی گئی اس سے ایک سال قبل یہ درآمدات 3.78 ارب ڈالرس کی رہی ۔ اب بات کرتے ہیں آذربائیجان کی اس ملک کو انڈین ایکسپورٹس 86.07 ملین ڈالرس بتائی گئی ۔ ہندوستان کو آذر بائیجان سے جو امپورٹس رہی ان کی مالیت 1.93 ملین ڈالرس رہی جبکہ سال 2023-34 ء میں یہ 89.07 ملین ڈالرس بتائی گئی ۔ ہندوستان کو آذربائیجان سے جو امپورٹس رہی اُن کی مالیت 1.93 ملین ڈالرس رہی جبکہ سال 2023-24 ء میں یہ 0.74 ملین ڈالرس رہی ۔ اگر ہم 2024ء میں ترکیہ کی معیشت کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسے سیاحتی شعبہ میں 61.1 ارب ڈالرس آمدنی ہوئی اور روزگار کے 3.3 ملین مواقع پیدا ہوئے ۔ 2025 ء میں بتایا جاتا ہے کہ ترکیہ کو سیاحتی شعبہ سے 135 ارب ڈالرس کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2024 ء میں 62.2 ملین سیاحوں نے ترکیہ کا دورہ کیا جس میں 3.3 لاکھ ہندوستانی سیاح بھی شامل ہیں جنھوں نے ترکیہ میں 300-400 ملین ڈالرس خرچ کئے ۔ اس مدت کے دوران 2.4 لاکھ ہندوستانی سیاحوں نے آذربائیجان کا سفر کیا ( واضح رہے کہ ہمارے ملک کے تین باوقار جامعات جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا آزاد قومی اُردو یونیورسٹی نے ترکیہ کے تعلیمی اداروں سے تعلقات منقطع کرلئے ) ۔
آپ کو یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ فبروری 2025 ء میں آذربائیجان کیلئے ہندوستان کی برآمدات 6.52 ملین ڈالرس اور آذربائیجان سے ہندوستان کے لئے درآمدات 6.46 ملین ڈالرس رہی جو دونوں ملکوں کے درمیان مثبت تجارتی توازن کا باعث بنی ۔ فبروری 2025 ء میں آذربائیجان کو جو سرفہرست ہندوستانی برآمدات رہی ان میں ادویات بنانے والے بیالوجیکلس (1.93 ملین ڈالرس ) تمباکو (1.84 ملین ڈالرس ) اور صنعتی مشنری برائے ڈیری وغیرہ ( 3.27 ہزار امریکی ڈالرس ) شامل ہیں ۔
آر ایس ایس اُس کی ذیلی تنظیموں خاص کر بی جے پی لیڈران اور کارکن اُن کے ہمدرد سب کے سب پاکستان کی مدد کی پاداش میں ترکیہ اور آذربائیجان کو سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ اُن کا یہ مطالبہ ناجائز نہیں ہے کیونکہ جو ہندوستان کے کٹر دشمن کے دوست ہوتے ہیں وہ بھی دشمنوں کی صف یا فہرست میں شمار ہوتے ہیں اس معاملہ میں ہمیں سنگھ پریوار اور اُس کے حامیوں بشمول تجارتی تنظیموں کی ہمت و جرأت کی داد دینی چاہئے کیونکہ اُن لوگوں نے اپنے مطالبات کے ذریعہ بہت بڑا کام کیا ہے۔ اس طرح کے بہادر ، دیش بھگت تنظیموں ، جماعتوں اور اُن کے قائدین سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ اس کرہ ٔ ارض پر ہندوستان کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک چین اور حالیہ عرصہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی اور اُن کی حکومت کو شرمندہ کرنے والے اور ہندوستانی مفادات کے خلاف کھلے عام اظہارِخیال کرنے والے امریکی صدر اور امریکہ کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے ۔
ان لوگوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ چین ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے نہ صرف اُس نے ہندوستان سے دشمنی کی بلکہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ ملکر ہمارے ملک کے خلاف سازشیں رچتا رہا ، پاکستان کو ہندوستان کے خلاف دل کھولکر اسلحہ بالخصوص جنگی طیارے فراہم کرتا رہا ہے ۔ پاکستان کے خلاف آپریشن سندور کے دوران 4 دنوں میں چین نے پاکستان کی بھرپور مدد کی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ہمارے دشمن کو J-10C لڑاکا طیارے فضاء سے فضاء میں مار کرنے والے PL-15 میزائیل ، JF-17 ، J-20 وغیرہ لڑاکا طیارے فراہم کئے یا پاکستان نے چین کے تعاون و اشتراک سے لڑاکا طیارے بنائے ۔ ایسے میں پاکستان کی مدد کرنے والا چین ہمارا دشمن نہیں ہے ؟ کیا ہمیں اس سے تعلقات منقطع نہیں کرنا چاہئے؟ یہی نہیں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چین مسلسل ہندوستانی علاقوں اروناچل پردیش اور لداخ میں دراندازی کررہا ہے ۔ اس ضمن میں خود بی جے پی لیڈر اور سابق رکن راجیہ سبھا سبرامنیم سوامی نے بار بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ چین 2 ہزار مربع کلومیٹر ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کرچکا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ ہماری ایک انچ زمین پر کسی نے قبضہ نہیں کیا ہے ۔
سبرامنیم سوامی نے یہاں تک کہدیا کہ مودی نے ’’بھارت ماتا ‘‘ سے دغا کیا ہے ۔ انھوں نے مودی جی اور اُن کی حکومت پر سنگین الزامات بھی عائد کئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مودی اور نہ ہی بی جے پی قائدین نے اُنھیں جواب دینے کی ہمت کی۔اگر ہم سبرامنیم سوامی کے الزامات کو سنجیدگی سے نہ بھی لیں تو 2022 ء میں اُس وقت کے مملکتی وزیر مرلیدھرن کے ایوان میں اس تحریری جواب کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ 6 دہوں میں چین نے ہندوستان کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ ( اراضی ) پر قبضہ کرلیا جبکہ وادی گلوان اکسائی چین میں اُس نے کیا کچھ نہیں کیا اور ہمارے کتنے جانباز سپاہی شہید ہوئے اس بارے میں بھی سب جانتے ہیں ۔ دوسری طرف ہم چین سے باہمی تجارت کا حجم مسلسل بڑھائے جارہے ہیں ۔
آپ کو بتادیں کہ چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان بہت زیادہ تجارتی عدم توازن پایا جاتا ہے چین سے ہونے والی درآمدات ہندوستان سے ہونے والی برآمدات سے بہت زیادہ ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 2022 ء میں چین کے ساتھ ہندوستان کی مجوعی تجارت 136.26 ارب ڈالرس تک پہنچ گئی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ تجارتی خسارہ 101.28 ارب ڈالرس درج کیا گیا ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین اور ہندوستان کی باہمی تجارت میں 2015 ء تا 2022 ء 12.87 فیصد اضافہ ہوا ۔ 2024 ء میں باہمی تجارت 118.40 ارب ڈالرس اور 2023 ء میں 113.80 ارب ڈالرس رہی اس طرح 2023 ء کی بہ نسبت 2024 ء میں 4 فیصد اضافہ ہوا ۔
گلوبل ٹریڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (GTRI) کے تازہ ڈیٹا کے مطابق مالی سال 2024 ء میں چین پھر سے ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا اس معاملہ میں اس نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ مالی سال 2024 ء میں ہندوستان کے جملہ امپورٹس میں چین کا حصہ 15.06 فیصد رہا ۔ ہندوستان نے اس سال 675.42 ارب ڈالرس کی مصنوعات امپورٹ کی جس میں چین سے اس نے 101.74 ارب ڈالرس مالیتی اشیاء امپورٹ کی ۔ ہندوستان کی چین کو ایکسپورٹس 16.65 ارب ڈالرس 2024 ء میں بھی اس کے برعکس اپریل 2024 ء کے دوران ہندوستان کو چین سے جو امپورٹس رہی وہ 74.41 ارب ڈالرس رہی ہے کہ چین 2005 اور 2024 ء کے دوران پاکستان میں 68 ارب ڈالرس کی سرمایہ کاری کرچکاہے ۔
ہمارے ملک سے تجارت ، ہمارے ملک سے کمائی ، ہمارے ملک سے آمدنی لیکن پاکستان کی ہر طرح سے وہ مدد کررہاہے ۔ اس کے باوجود کیا ہمیں چین سے تعلقات برقرار رکھنے چاہئے ؟ اس بارے میں بی جے پی آر ایس ایس اور اُن کے حامیوں کے منہ بند کیوں ہیں ؟ حد تو یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کو یکساں مقام پر لاکھڑا کردیا ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی میں کون ملوث ہے ؟ حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ ہندوستانی مفادات کے خلاف بیانات دے رہے ہیں ۔ انھوں نے ایپل کے سی ای او ٹیم کک کو ہندوستان میں آئی فونس اسمبل کرنے کے خلاف انتباہ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی جی سے لیکر بی جے پی کے کسی لیڈر نے اس کا جواب نہیں دیا ۔ بہرحال اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے تین سب سے بڑے دشمن ہیں چین اور پاکستان خارجی دشمن جبکہ فرقہ پرست داخلی دشمن ہیں ، یہ داخلی دشمن ہندوستانیوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور ان سب کا ایک ہی مقصد ہندوستان کی تباہی ہے ۔ ان تینوں کے مقاصد ناکام بنانا ہر ہندوستانی کا فرض ہے ۔