چین میں ائمہ مساجد اور علماء کیخلاف مظالم کا سلسلہ بدستور جاری

,

   

محلہ سے باہر دوسری مسجد میں نماز پڑھنا غیرقانونی ، چار سال میں 518 ائمہ کرام گرفتار :ایغور ایڈوکیسی گروپ
واشنگٹن ۔ 11 جون (سیاست ڈاٹ کام) چینی حکومت کی جانب سے مساجد کے امام اور دیگر مسلم علماء کرام کے خلاف کارروائیاں اور ان کے خاندان والوں کے خلاف ہراسانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ناروے میں قائم ایغور ایڈوکیسی گروپ نے ایسے مظالم کے بارے میں وی او اے سے بات کی ہے۔ایغور ایڈوکیسی گروپ نے بتایا ہے کہ 2016 سے اب تک چینی حکومت 518 اماموں اور مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کر چکی ہے۔ ان میں ایسے امام بھی شامل ہیں جن کو چین کی حکومت نے تربیت اور ملازمت دی اور اب ان کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی ہیں۔ان میں سے بعض کیمپوں میں حراست کے دوران ہلاک ہو گئے۔امام عبدالکریم میمت کو 2017 میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ بات مکہ میں مقیم ان کی بیٹی نے بتائی۔ ان کی بیٹی نے امریکی نیوزایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکام پہلے تو ان کے والد کے بارے میں اطلاعات چھپاتے رہے مگر بعد میں مقامی حکام سے پتہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جیل میں ہیں۔61سالہ امام عبدالکریم میمت کو چین کی حکومت نے ملازمت دی تھی اور یہ ینگی سار کاؤنٹی کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ان کے خاندان والے چینی حکام کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی کی تبلیغ کرتے تھے۔ ان کی بیٹی کا کہنا ہے کہ میرے والد پر امن انسان ہیں اور 2016 کے آخر تک انہیں سرکار سے تنخواہ ملتی رہی۔اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق، چین کی حکومت نے تقریباً 10 لاکھ مسلم ایغوروں کو عارضی کیمپوں میں نظر بند کر رکھا ہے۔سنکیانگ حکومت کے ترجمان ایلیجان عنایت نے امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ چائنا گلوبل ٹیلیویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت مسلم علما کا بڑا احترام کرتی ہے۔ مسلم بچوں کے لیے اسلامی تعلیمات کا بندو بست کرتی ہے، جن لوگوں کو مجرمانہ سرگرمیوں کی بنا پر سزا دی گئی ہے،

ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چینی حکام انتہا پسندی کے الزامات لگا کر مسلم برادری کے خلاف سرکاری طور مہم چلا رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔یونی ورسٹی آف نوٹنگھم کے تاریخ دان ریان تھم کا کہنا ہے کہ فرد جرم مبہم ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ چینی قوانین کے مطابق، ان الزامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں کی لمبی فہرست بنا رکھی ہے، جن میں سے اکثر غیر قانونی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے قصبے سے باہر کسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی غیر قانونی فعل قرار دیا گیا ہے۔روز ہل مین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں چینی علوم کے پروفیسر ٹموتھی گروس نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم ایغور علما، جو سرکاری ملازم ہیں، وہ بھی ان سزاوں سے مبرا نہیں ہیں۔ انہیں کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔مریم گل عبداللہ ایک ایغور مسلم خاتون ہیں اور ترکی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ ان کے شوہر عبدالحق ایک مذہبی عالم ہیں۔ وہ جب چین واپس گئے تو انہیں ایک جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ عبدالحق قاہرہ کی جامعۃ الازہر سے فارغ التحصیل گریجویٹ ہیں اور اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔وہ مارچ 2017ء میں چین واپس گئے تھے۔ انہیں ان کے بھائی نے اطلاع دی تھی کہ مقامی حکام نے ان کے چچا اور نامور ایغور شاعر کی یاد میں میوزیم بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ چین پہنچے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد سے ان کی اہلیہ کو ان کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں ملی۔