چین کے ساتھ ایل اے سی کے قواعد نظم میں تبدیلی

   

ہندوستان کیلئے مہنگی ثابت ہوگی

پراوین ساہنی
ہندوستانی اور چینی سپاہیوں کے درمیان لداخ کی وادیٔ گلوان میں جو پرتشدد جھڑپ کا واقعہ پیش آیا اور جس میں ہمارے 20 سے زائد سپاہی شہید ہوئے اس کے بعد سارے ملک میں عوام حکومت پر برہمی کا اظہار کرنے لگے۔ اس برہمی سے بچنے کے لئے نریندر مودی حکومت نے ’’رولس آف انگیجمنٹ‘‘ میں تبدیلی کا اعلان کیا۔ آپ کو بتادیں کہ پیپلز لیبریشن آرمی (PLA) نے ہندوستان کے ساتھ رولس آف مینیجمنٹ کا اعلان کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ وادیٔ گلوان جیسے مقامات پر ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کیا جائے گا کیونکہ لائن آف ایکچول کنٹرول (LAC) پر پچھلے 27 برسوں سے کشیدگی کا ماحول جاری تھا اور اس کشیدگی میں ایک دوسرے پر فائرنگ نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے دونوں افواج نے اسلحہ استعمال نہ کرنے کا عہد کیا تھا لیکن اب ہندوستان کی جانب سے واضح طور پر اعلان کردیا گیا ہے کہ وادیٔ گلوان میں اسی طرح کی صورت پیدا ہوتی ہے تو پھر گولیاں چلائی جائیں گی۔ چین نے ہندوستان کے اس اعلان پر افسوس کا اظہار کیا ہے حالانکہ سرکاری سطح پر اس کی توثیق نہیں ہوئی ہے لیکن نئے قواعد کا مطلب یہی ہے کہ ہندوستانی سپاہی اسلحہ سے لیس ہوں گے اور فائرنگ کا حکم ملنے پر وہ حفاظت خود اختیاری کے تحت چینی سپاہیوں پر فائرنگ بھی کردیں گے۔ یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ چین علاقہ میں مارشل آرٹس کے تربیت یافتہ فوجیوں کو تعینات کررہا ہے یا پھر ان فوجیوں کو مارشل آرٹس کی تربیت فراہم کررہا ہے۔ جیسے ہی حکومت ہند نے رولس آف اینگیجمنٹ میں تبدیلی کا اعلان کیا اس کے چند گھنٹوں بعد ہی پی ایل اے نے جارحانہ جوابی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے اضافی فورسیس بشمول دبابوں اور توپ خانوں کو لائن آف ایکچول کنٹرول کی جانب آگے بڑھایا ہے۔ صرف اسی پر اس نے اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے فوری طور پر تمام وادیٔ گلوان پر دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیپسانگ میدانی علاقوں میں انتہائی ڈھٹائی و بے حیائی کے ساتھ دراندازی بھی کی ہے۔

چین کے سرکاری ترجمان گلوبل ٹائمس نے ہندوستان کو پہلی گولی چلانے پر سنگین نتائج و عواقب کی دھمکی دی ہے۔ اسی دوران ہندوستان میں متعین چینی سفیر سن ویڈانگ نے کشیدگی کو دورکرنے اور صورتحال کو پیچیدہ نہ بنانے کا سارا بوجھ نئی دہلی پر ڈال دیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو رولس آف اینگیجمنٹ سے متعلق جو بیان جاری کیا گیا وہ دراصل ہندوستانیوں کی برہمی کو دور کرنے کے مقصد سے کیا گیا ہے کیونکہ وادیٔ گلوان میں ہندوستان اور چینی فوج کے درمیان پرتشدد جھڑپ کا جو واقعہ پیش آیا اور جس میں ہندوستان کے 20 سپاہی شہید ہوئے اس واقعہ پر ہندوستانیوں نے محسوس کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت سے کہیں نہ کہیں غلطی سرزد ہوگئی ہے یا کمی رہ گئی ہے کیونکہ 19 جون کو مودی نے ایک حیران کرنے والا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے پر زور انداز میں کہا تھا کہ کوئی بھی ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوا اور اب بھی کوئی واہاں موجود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے چوکیوں پر قبضہ کیا گیا۔ ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی کہا کہ اس بیان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان نے اپنے علاقہ پر پی ایل اے کے قبضہ کو بڑی خاموشی سے قبول کیا ہے۔ اس بیان کی اجرائی سے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سرحد پر تناؤ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی جانب سے سابق فوجیوں اور دفاعی مبصرین نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہندوستانی سپاہیوں کو اب اس علاقہ میں نہتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ اسلحہ سے لیس ہوکر پرتشدد کارروائی کی صورت میں حفاظت خود اختیاری کے تحت چینی سپاہیوں پر گولیاں چلادینا چاہئے۔ مودی حکومت نے 2016 میں سرجیکل حملوں کے ذریعہ پاکستان کے ساتھ یہ گیم بڑی کامیابی سے کھیلا تھا اسی طرح 2019 بالاکوٹ حملوں کے ذریعہ بھی یہ گیم کھیلا گیا اور اسے کامیابی بھی ملی لیکن پی ایل اے چینی فوج کا حصہ ہے پاکستانی کی فوج نہیں اور چین، چین ہے پاکستان نہیں اور خاص طور پر دونوں جانب کی جنگی تیاریاں سب پر ظاہر ہیں۔ جیسے ہی وادی گلوان پر پرتشدد جھڑپ کا واقعہ پیش آیا ہندوستانی فوج کو جانی نقصان ہوا اس کے چند دن بعد ہی ہمارے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ماسکو کا تین روزہ دورہ کیا اور وہاں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے دبابوں، جنگی طیاروں، بندوقوں اور دفاعی پلیٹ فارمس کے پرزے بڑی تیزی سے روانہ کرنے کی خواہش کی۔ یہ بھی کہاجارہا ہیکہ ہندوستانی مسلح فورسیس کو روسی اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ پہنچائی جانے والی ہے۔

اس بلند ترین علاقہ میں جنگی مواد جمع کرنے کی پوری پوری سہولتیں موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایل اے سی پر پیپلز لیبریشن آرمی کے خطرہ میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا تھا اور ہندوستان کو اس بات کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ کس طرح اس بڑھتے ہوئے حملے سے نمٹا جائے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان بلند جنگی میدانوں پر پی ایل اے کے مزید فوجیوں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اور چین اس انتظار میں ہے کہ ہندوستان کوئی غلطی کر بیٹھے، کیونکہ ہندوستان اپنے فوجیوں کی شہادت کو لے کر کافی برہم ہے اور خاص طور پر عوام میں برہمی کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق چین، ہندوستان کو برہم کرکے غلطیوں کا ارتکاب کروانا چاہتا ہے لیکن ہندوستان کو بہت ہی محتاط انداز میں چینی فوج اور اس کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

میں نے سال 2000 میں اپنی کتاب ’’دی ڈیفنس میک اوور: ٹین میتھس ‘‘ جنہوں نے ہندوستان کی شبیہہ کو بنایا ہے اس میں لکھا ہے کہ پیپلز لیبریشن آرمی اُس وقت اپنے سرحدی نظم یا بارڈر مینیجمنٹ میں بہتری لائے گی۔ ہندوستان نے سرحدی تنازعہ کی کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے یا اسے کم کرنے کے لئے چین کے ساتھ 1993 میں امن و امان کا ایک معاہدہ طے کیا تھا جہاں سرحدوں کو ازسرنو ایل اے سی کا نام دیا گیا۔ یہی ہندوستان کی ایک تاریخی غلطی تھی تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہیکہ لائن آف ایکچول کنٹرول نے امن کو یقینی بنانے میں مدد کی ہے کیونکہ اس معاہدہ کے بعد ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان کوئی گولی نہیں چلی۔