صدر سائی رنگ کا آبنائے تائیوان میں استحکام کیلئے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تیقن
بیجنگ : چین نے نئے امریکی وفد کی تائیوان آمد پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج سے ہی مزید فوجی مشقوں کا آغاز ہو گا۔ پانچ رکنی ایک اور امریکی وفد نے پیر کو تائیوان کے صدر سے ملاقات کی تھی۔چین نے تائیوان کے لیے امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے 16 اگست منگل کے روز سے مزید فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے اپنی نئی فوجی مشقوں کے بارے میں بہت کم تفصیلات کا انکشاف کیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ مشقیں کہاں اور کب کی جائیں گی جیسا کہ عام طور اس بارے میں بتا دیا جاتا ہے۔میساچوسٹس کے ڈیموکریٹک سینیٹر ایڈ مارکی کی قیادت میں ایک پانچ رکنی امریکی وفد نے پیر کو تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کی تھی، جس پر چین نے ایک بار پھر سے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔اتوار دیر رات پہنچنے والے امریکی وفد نے واضح کیا تھا کہ وہ تائیوان کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرنے کے لیے تائی پے پہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا ہی ایک صوبہ مانتا ہے۔واشنگٹن کا موقف ہے کہ وہ اپنی ایک ’’متحدہ چین‘‘ کی پالیسی پر قائم ہے اور اسی پالیسی کے تحت چین کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ایڈ مارکی نے تائیوان کی صدر سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ امریکہ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ضروری تنازعہ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور تائیوان نے مشکل وقت میں ناقابل یقین تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔پیر کے روز ہی امریکی وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد تائیوان کی صدر سائی نے کہا کہ ان کی انتظامیہ آبنائے تائیوان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے الزام لگایا کہ امریکہ ’’ون چائنا‘‘ (متحدہ چین) کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ تائیوان کی آزادی کی حامی علیحدگی پسند قوتوں کے ساتھ مل کر، مٹھی بھر امریکی سیاست دان ون چائنا کے اصول کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ناکامی اس کا مقدر ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائی پے کے جواب میں، چین نے تائیوان کا محاصرہ کر کے آس پاس کئی روز تک حقیقی فوجی مشقیں کی تھیں۔ تاہم اس کے باوجود امریکی سینیٹرز کا ایک وفد اتوار کو پھر تائیوان پہنچا اور امریکی حمایت کا اعادہ کیا۔لیکن امریکہ اس بات پر ابہام کا شکار ہے کہ آیا اگر جزیرے پر چین حملہ کرتا ہے، تو وہ تائیوان کے دفاع میں آگے آئے گا یا نہیں۔تائیوان کے ساتھ امریکی دفاعی تعلقات کی رہنمائی اس ’’تائیوان ریلیشنز ایکٹ‘‘ سے ہوتی ہے، جس پر سن 1979 میں قانونی طور پر دستخط کیے گئے تھے۔ اسی برس امریکہ نے سفارتی تعلقات کے لیے چین کو تسلیم کیا تھا۔امریکہ گرچہ ون چائنہ کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم ساتھ ہی تائیوان کے ساتھ اس کے نہ صرف دوستانہ تعلقات ہیں بلکہ وہ اسے ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ اور تائیوان خطے میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی بھی ہے۔چین کے شدید احتجاج کے باوجود امریکہ کی جانب سے تائیوان کو دفاعی فوجی ساز و سامان فروخت کرنا جاری ہے۔ لیکن سرکاری طور پر امریکہ نے فوجی مداخلت کا کوئی عہد بھی نہیں کر رکھا ہے۔اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کی کیا مدد کرے گا؟ کیا وہ جواباً تائیوان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑے گا یا صرف اسے ہتھیار فراہم کرے گا۔ اس حوالے سے ابہام برقرار ہے۔