جسپال سنگھ
انقلاب کیا ہے۔ کیا ہوتا ہے انقلاب۔ اس پر مفکرین اپنا اپنا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ Karl Mar, Bakunin, Hegel, Kant Mark Katz نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انقلاب کی ایک نہیں 6 قسمیں ہیں۔ ان تمام مفکرین سے دور 12 مارچ 1930 کو مہاتما گاندھی نے ایک نئے اور غیر معمولی انقلاب کو جنم دیا۔ ڈانڈی مارچ کی شکل میں یہ اُس وقت میں رائج نمک قانون کے خلاف تھا۔ مہاتما گاندھی اور ان کے 79 ساتھی، سینکڑوں میل کا خاموش پیدل سفر، سفر کیا شروع ہوا غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہر بے بس و لاچار ہندوستانی اٹھ کھڑا ہوا۔ خاموش سفر کی خاموش دہاڑ ہندوستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر کوچہ میں گونج اٹھی۔ یہ ایک نیا انقلاب تھا تمام مفکرین کی سوچ سے پرے۔ تشدد یا خون خرابے سے دور غلام کیا جاگا حکمران کانپ اٹھا اور آزادی دروازہ پر کھڑی نظر آئی۔ یہ ایک ایسا نیا انقلاب تھا جسے دنیا نے دیکھا اور اپنایا۔ اگر ساوتھ افریقہ کے Nelson Mandda نے اسے اپنایا تو امریکہ کے Martin Luther King (Junior) نے اسے بخوبی استعمال کیا۔ اس کی گونج 2013 میں اگر Istanubul کے Gezi Park میں سنائی دی تو Egypt میں Arab Spring میں بھی اس کا اثر منظر عام پر آیا۔ اسی ڈانڈی مارچ کی جھلک شاہین باغ کے دھرنے میں بھی نمایاں ہوئی۔
شاہین باغ ایک لحاظ سے یوں مختلف تھا کہ یہ گھریلو عورتوں پر مشتمل تھا، لیکن انداز وہی، خاموش آواز جو ایک عرصہ تک دن کے اُجالے اور رات کے اندھیروں میں گونجتی رہی۔ ایک قانون کے خلاف ایک حق کے لئے مخالفین کا کہنا ہے اُس سے قانون تو نہیں ٹوٹا۔ وہ تو برقرار رہا۔ یہ درست ہے، لیکن جس قانون کے خلاف مہاتما گاندھی نے ڈانڈی مارچ کی قانون تو وہ بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ قانون تو 1946 میں جاکر ٹوٹا۔
شاہین باغ میں جہاں ڈانڈی مارچ کی جھلک نظر آتی ہے وہیں اس میں Thomas Habbes کے خیالات سے ہٹ کر John Locke کی (1689) Troatise on Gvil Government اور Jean- Jacques Rousseau کی Diseourse on the Origin of Inequality (1755) اور Social Contract (1762) کا اثر نظر آتا ہے۔ شاہین باغ نے اُن خیالات سے مناسبت رکھتے ہوئے اپنے ہی ایک انداز میں رعایا کی “General Will” کو حکمران کے سامنے لاکھڑا کیا۔
جہاں ڈانڈی مارچ نے دنیا کے سامنے ایک دھوتی اوڑھے عمر رسیدہ شخص کو لاکھڑا کیا تو وہیں شاہین باغ کی ایک عمر رسیدہ گھریلو عورت دنیا کی آنکھ کا تارا بن کر ابھری۔ Time Magazine نے تو اسے دنیا کی چند ہی ہستیوں میں شامل کیا۔ وہ عمر رسیدہ بلقیس بانو راج کرتی رہے ہر اس دل پر جو حق اور انصاف پر یقین رکھتا ہے۔ اسے کنگنا رناوت چاہے ہی 100 روپے میں بکنے والی عورت کہہ لے وہ اب بھی لوگوں کی آنکھ کا تارہ ہے۔ اس کا احساس اپنے فن کو چند ٹکوں میں بیچنے والی عورت کو نہیں ہوسکتا۔
اور شاہین باغ؟ کیا اسے لوگ بھول گئے ہیں؟ کیا وہ صرف ایک پانی کے بلبلے کی مانند تھا؟ یکایک ہلکا سا جھونکا جو آیا اور چلا گیا؟ کیا وہ صرف ایک بے اثر اور ناکام ہنگامہ تھا؟ اس کا جواب دلی بارڈر پر چل رہے کسان آندولن سے ملتا ہے۔ اس آندولن میں بھی خواتین کی خاصی شمولیت ہے۔ Wire چینل نے جب ان خواتین سے پوچھا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر آندولن میں کیوں شامل ہوئی ہیں تو ان کا جواب چونکا دینے والا تھا۔ ایک نے کہا بلقیس دادی نے راہ دکھائی۔ تو دوسری بولی شاہین باغ کو مسلمانوں کا کہہ کر بدنام کیا گیا۔ تیسری بولی ’’اگر صحیح معنوں میں بولوں تو شاہین باغ سے ہی پریرنا ملی‘‘ ایک اور آواز آئی ’’شاہین باغ میں جو اتہاس رچا گیا لڑنے کا حوصلہ تو وہیں سے ملا ہے‘‘ اور پھر ایک نے کہا ’’شاہین باغ ہمارا آدرش ہے‘‘ ’’Ideal‘‘ ہے۔ شاہین باغ کیا ایک گمنام اور ناکام آندولن تھا؟