وینکٹ پارسا
ڈاکٹررخشندہ جلیل ملک کی مشہور و معروف مصنفہ ، نقاد ، ادبی مؤرخ ، مترجم ، کالم نگاراور دانشور ہیں ان کی تازہ ترین تصنیفLove in the Time of hate in the Mirror of Urdu ( نفرت کے دور میں محبت۔ اُردو کے آئنہ میں ) کی حال ہی میں ممتاز شاعر و نغمہ نگار جاوید اختر کے ہاتھوں دہلی میں رسم اجراء انجام پائی۔ ڈاکٹر رخشندہ جلیل ہر سال ’ آفرین۔ آفرین‘ نامی فیسٹول کا اہتمام کرتی ہیں‘ یہ فیسٹول دراصل ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کا آئنہ دار ہوتا ہے جس کا مقصد ہی ہمارے عظیم ملک کی مشترکہ تہذیب کو اُجاگر کرتے ہوئے مقبول عام بنانا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ گنگا جمنی تہذیب سے عام و خاص بالخصوص نوجوان نسل کو واقف کروانے میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر رخشندہ جلیل کے بارے میں آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ’ ہندوستانی آواز‘ نامی ایک تنظیم بھی چلاتی ہیں، یہ تنظیم ہندی۔ اُردو ادب اور تہذیب و ثقافت کو مقبول عام بنانے کیلئے وقف ہے۔ ویسے موجودہ حالات میں جبکہ نفرت کو پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے ایسے میں نفرت کا مقابلہ محبت سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ہندی۔ اُردو ادب کو فروغ دیتے ہوئے ان کے ذریعہ ہی نفرت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے کامیاب ادبی سفر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک ان کی 25 کتابیں اور 50 مقالہ جات شائع ہوکر منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ وہ دہلی کی اپنی تاریخی یادگاروں پر اپنی انگریزی کتاب
Invisible City; the hiden monument of Delhi اور اپنے انگریزی افسانوں کے مجموعے Release and other Stories کیلئے کافی شہرت رکھتی ہیں جسے ہارپر کالنز نے سال 2011 میں شائع کیا ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’ اُردو میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک ‘‘ پر لکھا تھا اور اس مقالہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے انگریزی میں Liking Progress Loving کے عنوان سے شائع کیا۔ انہوں نے تحریک نسواں کی حامی مصنفہ راشد جہاں کی سوانح حیات A Rebel and Her Cause ( ایک باغی اور اُن کا کاز ) بھی تحریر کی۔ ممتاز اُردو ناول نگار ماہر لسانیات مصنفہ و مترجم قرۃ العین حیدر پر بھی
Qurratullain Hyder and the River of fire, Scope and Significance of Her Lagacy
کے زیر عنوان کتاب لکھی ۔ واضح رہے کہ قرۃ العین کی پیدائش 20 جنوری 1927 میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش کے علیگڑھ میں ہوئی۔ قرۃ العین کے والد سجاد حیدر ہلدرم اُردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کئے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اُن کا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا لیکن بعد میں انہوں نے ہندوستان آکر رہنے کا فیصلہ کیا۔ قرۃ العین حیدر 21 اگسٹ 2009 کو نوئیڈا میں انتقال کرگئیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدرفون ہوئیں۔ خود ڈاکٹر رخشندہ جلیل مرانڈا ہاؤس دہلی، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فارغ التحصیل ہیں‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ ان کی مشہور کتابوں But You don’t look like a Muslim بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر رخشندہ جلیل کی پیدائش 20 جولائی 1963 میں دہلی میں ہوئی، وہ اکثر و بیشتر لکچرس دینے اور سمیناروں سے خطاب کیلئے ملک و بیرون ملک کے دورے کرتی رہتی ہیں، وہ ہمیشہ ہندو۔ مسلم اتحاد پر زور دیتی ہیں اور ہندو ۔ مسلم اتحاد کی بھرپور وکالت کرتی ہیں۔ وہ ہندوستانی تہذیب اور تہذیبی اخلاقیات کی خوبصورتی، اس کی خوبیوں، اس کی خوشبو سے ملک و بیرون ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کو واقف کرواتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر رخشندہ جلیل اپنی تازہ ترین کتاب Love in the Time of Hate, In the Merror of Urdu پر بات کرنے کیلئے لامکان کی دعوت پر 28 اگسٹ 2024 کو حیدرآباد تشریف لارہی ہیں، ایسے میں ہم نے سوچا کہ ان کی اس تازہ تصنیف پر تبصرہ کریں تاکہ ’ سیاست‘ کے معزز قارئین بھی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ہندو ۔ مسلم اتحاد سے متعلق ان کے جذبات و احساسات ‘ ان کی سوچ و فکر اور ان کی تڑپ سے واقف ہوسکیں۔ ڈاکٹر رخشندہ جلیل کی مذکورہ کتاب پر تبصرہ کے دوران میرے ذہن میں بار بار 17 ویں صدی کے انگریزی شاعر جان ملٹن کی عظیم رزمیہ نظم Paradise Lost ( فردوس گمشدہ ) کا تصور آرہا تھا، اس نظم کو ملٹن کا شاہکار سمجھا جاتا ہے جو انسان کے زوال کی بائبل کی کہانی سے متعلق ہے۔ رخشندہ کے پاس بھی اتنا ہی واضح اور عظیم شاعری کا پیمانہ اور ابتدائیہ ہے باالفاظ دیگر رخشندہ کی یہ کتاب جدید دور کا کلاسک ادبی فن پارہ ہے، یعنی انہوں نے نفرت کے زمانے میں محبت کی اہمیت و افادیت کے خوبصورت چہرہ کو اُردو کے آئینہ میں بڑی کامیابی سے دکھایا ہے۔ اس بات کا پتہ لگاتے ہوئے کہ کس طرح صورتحال ایک سُست لیکن مستحکم شکل اختیار کرگئی ہے اپنی کتاب میں رخشندہ بتاتی ہیں کہ آہستہ یعنی سُست روی کے ساتھ چھوٹے بظاہر معمولی واقعات کی 1990 کی ملک گیر رتھ یاترا سے شروعات ہوئی تھی۔ اس اس وقت تک ’’ نارمل ‘‘ کی ایک تہہ کو جوڑتے رہے جب تک ہم اس نئے نارمل کے مرحلہ پر پہنچے جہاں کھلا تعصب ، فرقہ واریت کا بے نقاب چہرہ اور عوامی سطح پر نشر ہونے والے تعصبات یا شرانگیزی و نفرت کو بالکل ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ تعصب، جانبداری، امتیازی رویہ اور شر انگیزی جیسی برائیوں کو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ لوگوں کو ان اقدار کو فراموش کردینے، بُھلادینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے جن اقدار کے ساتھ وہ بڑے ہوئے وہ اقدار اتحاد و اتفاق، محبت و مروت، ایثار و قربانی اور انسانیت کے اقدار تھے۔ رخشندہ نے اس معاملہ میں شہریار کا ایک شعر استعمال کیا ہے جو یوں ہے:
وقت تیری یہ ادا میں آج تک سمجھا نہیں
میری دنیا کیوں بدل دی مجھکو کیوں بدلا نہیں
کینوس بہت بڑا چوڑا ہے لیکن رخشندہ قاری کے دل میں ایک راگ جماتی ہیں یہاں تک کہ نفرت اور تشدد کے سنگین و خوفناک اور ایسے خوفناک سماجی ماحول جس سے سارے جسم میں سنسناہٹ دوڑ جائے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے بھی اسی طرح قاری کو پوری طرح اپنی جانب کھینچے رکھتی ہیں یہاں تک کہ وہ اس تشدد اور نفرت کے خوفناک ماحول سے واقف کروادیتی ہیں جس نے چاروں طرف کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، ساتھ ہی مصنفہ اُردو کا وہ صاف و شفاف آئینہ تھامے ہوئے ہے جو قوم کو ان ابدی بنیادی تہذیب و ثقافت اور تہذیبی اخلاقیات کی طرف لوٹا دیتا ہے جس نے ایک منفرد قومی شخصیت کی تشکیل کی ہے، اس کی تعریف و تشریح، بیگانگی اور عدم شمولیت سے نہیں ہوئی بلکہ انضمام اور شمولیت سے ہوتی ہے جو کہ ہندوستان کا بنیادی آئیڈیا ہے۔ اُردو کے نامور شاعر ساحر لدھیانوی کے جادوئی اثر رکھنے والے کلام کا سہارا لیتے ہوئے رخشندہ جلیل نے ایک عظیم مصالحت و مفاہمت کا اسٹیج تیار کیا ہے اور یہی تباہ کن اور خودکشی کے راستے سے واپس ہونے کا واحد راستہ ہے۔ رخشندہ نے ساحر لدھیانوی کے اس شعر کا سہارا لیا:
نفرتوں کے جہاں میں ہم کو
پیار کی بستیاں بسانی ہیں
دور رہنا کوئی کمال نہیں
پاس آؤ تو کوئی بات بنے
80 موضوعات پر مشتمل اس کتاب کو چار حصوں سیاست، عوام ، جذبات اور مقامات میں تقسم کیا گیا ہے۔
سیاست کے حصہ میں رخشندہ نے کئی ایک سُلگتے مسائل کا احاطہ کیا ہے مثلاً ملک کی تقسیم کے نتیجہ میں قوم فرقہ وارانہ منافرت کی لپیٹ میں آگئی اور فرقہ وارانہ جنون کے طوفانوں کی زد میں آکر جھلس گئی ہے حالانکہ توقع تو اس بات کی تھی کہ قوم اس سے کچھ سبق سیکھے گی لیکن اس سے بہت دور جان بوجھ کر منافرت کی آگ بھڑکانے کی کھلے عام کوششیں کی جارہی ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ ہندوستان کی آزادی کے75 سال بعد بھی تقسیم کی ہولناکیوں کو دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے ہولناک حالات پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں ۔ حلال، حجاب اور لوجہاد جیسے تنازعات جان بوجھ کر پیدا کئے جارہے ہیں ساتھ ہی ہجومی تشدد جو فرقہ وارانہ فساد کی چھوٹی سی شکل ہے کے ذریعہ اسی ناپاک ارادوں کے ساتھ جان لیوا تشدد اور نفرت کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنارہے ہیں جس طرح اڈولف ہٹلر نے نفرت اور تشدد کے ذریعہ یہودیوں کو نشانہ بناکر اچھی خاصی صورتحال کو تباہ کن صورتحال میں تبدیل کردیا تھا۔ ایک ہندو کے طور پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی نفرت انگیز اور باغیانہ فعل ہے کہ ایک مقدس نعرہ کو دہشت گردی سے متاثر کرنے والے نعرہ میں تبدیل کردیا گیا جو جسم میں سنسناہٹ پیدا کردیتا ہے جبکہ بھگوان رام کو رامائن میں ہمدردی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لنکا میں جنگ شروع ہونے سے عین قبل شری رام چندر جی نے ونار شیزارہ انگلڈ کو اپنا سفیر اپنا قاصد بناکر راون کے پاس بھیجا، ان کا صاف سیدھا اور سادہ پیام یہی تھا کہ سیتا کو لوٹادو‘ میں اس راستے سے واپس چلا جاؤں گا جس راستہ سے آیا تھا۔ راون اس پیام کو رام جی کی کمزوری کی علامت سمجھ بیٹھا اور پُرامن تجویز کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نفرت کے اس دور میں اُس طرح کی رحمدل و ہمدرد شخصیت کو متضاد انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ دہلی فسادات اور دوسرے مقامات پر جب خوفناک نعرے بازی کی گئی یا فرقہ وارانہ فسادات نے جب ملینم سٹی گرگاؤں کو اپنی لپیٹ میں لیا، اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ فرضی منظر نامے نہیں رہے یہ بے شمار ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک زندہ حقیقت ہے۔ انور جلیلپوری کا یہ شعر :
تیرا ہے نہ میرا ہے یہ ہندوستان سب کا ہے
نہیں سمجھی گئی یہ بات تو نقصان سب کا ہے
تمام ہندوستانیوں کو اتحاد و اتفاق کا پیغام دے رہا ہے، ہندوستان کی صورتحال متوازی نہیں ہے ، اڈولف ہٹلر جس طرح اقتدار میں آیا اس کے طریقوں کے کئی حیرت انگیز پہلو ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہٹلر کو بہت زیادہ شخصی مقبولیت حاصل تھی اس کے باوجود مقبول عام انتخابات میں اس کا مظاہرہ کبھی بھی اچھا نہیں رہا۔ یہاں ایک اور دلچسپی کی بات ہے کہ اس نے بھی37 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے ، وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھا، آزادی اظہارِ خیال اور ریالیوں کے اہتمام جیسے جمہوری حقوق کا استعمال کیا اور بالآخر جمہوری عمل کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور جیسے ہی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی Weiner Republic کو غیرکارکرد اور ختم کردیا۔
رخشندہ جلیل نے اپنی کتاب میںان لوگوں کیلئے 1961 کی فلم Judjement at Nuremberg کا حوالہ دیا جو امکانی تباہ کن نتائج کے بارے میں جاننے کے باوجود خاموش رہے، اسی مجرمانہ خاموشی کے نتیجہ میں خوفناک انجام سے دوچار ہوئے۔ نازی جرمنی میں سول سوسائٹی، عاملہ، عدلیہ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں خوفناک تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں انہیں روکنے اور اس کے خلاف آواز اُٹھانے کے باوجود لوگوں نے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اسی کے باعث انہیں تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔
رخشندہ جلیل لکھتی ہیں کہ ایک امریکی جج جنگ کے بعد کے جرمنی میں ایک ٹریبونل کی صدارت کررہا تھا جس میں چار جرمنی ججس پر نازی مظالم کو قانونی قرار دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا، اسی الزام کے تحت ان پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ ہندوستان میں ہمارے لئے ایک سبق ہے اور ایک انتباہ ہے۔ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے ہٹلر عوام کی ایک بڑی اکثریت کے اذہان و قُلوب میں خوف پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے اپنی کتاب میں ملک کی مشترکہ تہذیب کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔