ڈاکٹر سندیپ پانڈے کی مثالی انسانیت نوازی

   

محمد ریاض احمد
ہمارا وطنِ عزیز ایک عظیم ملک ہے جو علم و ادب، تہذیب و تمدن خاص کر گنگا جمنی تہذیب کا گہوار ہے اور ہم تمام ہندوستانیوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کے دامن میں بے شمار مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں،جن کے درمیان اُخوت و بھائی چارگی کا مستحکم رشتہ پایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جہاں پھول ہوتے ہیں وہیں کانٹے بھی اُگ آتے ہیں، جہاں امن کے خواہاں انسان رہتے ہیں وہاں بدامنی پھیلانے والے عناصر بھی سر اُبھارتے ہیں، جہاں حق ہوتا ہے اس کے مقابل میں باطل طاقتیں بھی اُٹھ کھڑی ہوجاتی ہیں۔ غرض سچائی کے خلاف دروغ گوئی، محبت کے خلاف نفرت، نیکی کے خلاف برائی‘ گاندھی کے خلاف گوڈسے، محبِ وطن اور حقیقی قوم پرستوں کے خلاف فرضی قوم پرست اور فرقہ پرست اپنے بدنما سر اُٹھاتے ہیں‘ ایسا ہی ہمارے ملک کا حال ہے، یہاں ملک کو توڑنے والوں سے کہیں زیادہ جوڑنے والے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز ہندوستان کی خوبیوں کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اپنی تاریخی اور یادگار نظم ’’ میرا وطن وہی‘‘ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں کچھ یوں پیش کیا: ۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا
نائک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
یونانیوں کو جس نے حیران کردیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہُنر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکان سے
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
بہرحال ہمارے ملک کی عظمت کی ساری دنیا قائل ہے لیکن افسوس کہ اس ملک کو اپنی قبیح حرکتوں اور لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے میں فرقہ پرست مصروف ہیں ، ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود باالفاظ دیگر وقفہ وقفہ سے گاندھی کی شکل میں امن و امان کا قتل کرنے والے گوڈسے دہشت کی شکل میں اُٹھتے ہیں تو ان کے مقابلہ کیلئے کئی گاندھی پیدا ہوجاتے ہیں جس کی تازہ مثال ممتاز ماہر تعلیم سماجی و انسانی حقوق کے جہد کار، پُرزورانداز میں امن کی وکالت اور جنگ و جدال کی مخالفت کرنے والے ڈاکٹر سندیپ پانڈے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے 58 سالہ ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے حال ہی میں وہ کام کیا ہے جس نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔ فرقہ پرستی، مذہبی اقلیتوں کے قتل، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں ان سے امتیازی سلوک، تعصب و جانبداری کے ذریعہ فرقہ پرستوں نے اس کرہ ارض پر جس طرح ہمارے ملک کی شبیہہ متاثر کی تھی ڈاکٹر پانڈے کی انسانیت نوازی نے اسے بہتر بنایا ہے۔
اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے ایسا کیا کام کیا کہ ہندوستان کی شبیہہ دنیا بھر میں بہتر ہوئی ہے اور انہوں نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ ملک میں تخریبی طاقتیں پریشان اور قوم پرست و سیکولر طاقتیں نازاں ہیں؟ آپ کو بتادیں کہ ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے وہ کام کیا ہے اور وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو کسی مسلم عالم، مسلم حکمراں، مسلم سیاستداں اور متمول مسلم صنعت کاروں نے انجام نہیں دیا۔دراصل انہوں نے فلسطینیوں اور فلسطین کو تباہ و برباد کرنے والے اسرائیل کی تائید و حمایت کرنے والے امریکہ کو حقوق انسانی کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین کے قاتل اسرائیل کو امریکی تائید کے خلاف بطورِ احتجاج اپنا میگسسے ایوارڈ واپس کردیا۔ اگرچہ یہ ایوارڈ فلپائن کے سابق صدر ریمن میگسسے سے موسوم ہے اور میگسسے فاؤنڈیشن کی جانب سے غیر معمولی عوامی خدمات کیلئے عطا کیا جاتا ہے لیکن اس کی فنڈنگ فورڈ فاؤنڈیشن اور راک فیلر فاؤنڈیشن امریکہ کی جانب سے کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سندیپ پانڈے دراصل اس بات کو لیکر بہت پریشان تھے کہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والا امریکہ معصوم فلسطینیوں کی حالت زار ان کے قتل عام پر کیسے آنکھیں بند کئے بیٹھ سکتا ہے۔ امریکہ نے آخر کیونکر اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کو نظرانداز کیا ہے؟ اسرائیل کی جگہ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو امریکہ اس پر بے شمار پابندیاں عائد کردیتا۔ ڈاکٹر سندیپ پانڈے کے خیال میں روس۔ یوکرین جنگ پر امریکہ نے جو موقف اختیار کیا اور جس طرح پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کے ساتھ کھڑا رہا وہ درست ہے لیکن اسرائیل۔ فلسطین جنگ میں امریکہ نے مظلوم کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ظالم کو فوجی امداد کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی فراہم کررہا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سندیپ کا شمار صرف ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر کے ممتاز سماجی و حقوق انسانی کے کارکنوں و امن جہد کاروں میں ہوتا ہے، وہ سوشلسٹ پارٹی ( بھارت ) کے جنرل سکریٹری ہیں، غریب بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی انہوں نے ہمیشہ حمایت کی اور اس ضمن میں عملی اقدامات بھی کئے جس کا ثبوت’’آشا فار ایجوکیشن‘‘ نامی تنظیم ہے جس کی 12 شاخیں ہیں اور یہ تنظیم پسماندہ و کمزور طبقات کے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہ گاندھی جی کی تعلیمات پر چلتے ہیں‘ تشدد کی مخالفت اور عدم تشدد کی وکالت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر پانڈے کو سال 2002 میں باوقار میگسسے ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی تائید و حمایت کرتے ہوئے نہ صرف میگسسے ایوارڈ واپس کردیا کیا بلکہ امریکی سائراکیوز یونیورسٹی نیویارک سے مینوفیکچرنگ اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ میں جو ڈبل MS کیا تھا وہ ڈگریاں اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے مکنیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کیا تھا، یہ تمام ڈگریاں بھی مریکی یونیورسٹی کو واپس کردیں۔ آپ کو بتادیں کہ عراق پر امریکی حملہ اور قبضہ کے خلاف منیلا فلپائن میں انہوں نے امریکی سفارتخانہ کے باہر احتجاج میں بھی حصہ لیا، جس پر میگسسے فاؤنڈیشن کے اُسوقت کے صدرنشین نے انہیں احتجاج میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی اس حرکت سے میگسسے فاؤنڈیشن کی ساکھ متاثر ہوگی۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ’’ میں جنگوں کا مخالف ہوں‘‘۔ اُسوقت منیلا کے ایک مشہور اخبار نے اپنے اداریئے میں ڈاکٹر پانڈے کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ اُصول پسند ہیں تو انہیں ایوارڈ واپس کردینا چاہیئے ۔ چنانچہ ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے ایوارڈ کی رقم یہ کہتے ہوئے لوٹادی تھی کہ یہ رقم امریکی فاؤنڈیشن سے آتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ1958 سے میگسسے ایوارڈ 55 ہندوستانیوں کو پیش کئے گئے ہیں جن میں جئے پرکاش نارائن، ونو بھاوے بابا امٹے جیسی شخصیات بھی شامل ہیں جبکہ 2019 میں یہ باوقار ایوارڈ ملک کے بے باک و نڈر صحافی روش کمار کو بھی دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر سندیپ پانڈے دنیا بھر میں انسانیت نوازی کیلئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1999 ء میں پوکھران سے سارناتھ تک عالمی جوہری اسلحہ کی تخفیف کی تائید میں نکالے گئے مارچ میں بھی حصہ لیا ۔ سال 2005 ء میں ان کی قیادت میں نئی دہلی تا ملتان ہند۔پاک امن مارچ بھی نکالا گیا تھا ۔ وہ دنیا کے علمی حلقوں میں ایک غیر معمولی ماہر تعلیم کے طور پر اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بنگلور ، آئی آئی ایم احمد آباد ، آئی آئی ٹی گاندھی نگر کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ نلسار یونیورسٹی آف لا کے ساتھ ساتھ آئی آئی ٹی بنارس ہندو یونیورسٹی میں بھی پڑھایا ۔ قارئین آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا ، وہ یقیناً انسانیت پر بدنما داغ ہے۔ گزشتہ 90 دنوں کے دوران اسرائیل نے فلسطینیوں کا جو قتل عام کیا ، اس میں 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہید تقریباً 60 ہزار زخمی ہوئے ۔ غزہ کے چالیس میں سے بیشتر اسپتال پناہ گزیں کیمپس اسکولس تباہ و برباد ہوگئے ۔ اسرائیل نے 65 ہزار ٹن بم اور میزائیل کی غزہ کے مختلف علاقوں خاص کر رہائشی علاقوں میں بارش کردی جس میں 10 ہزار فلسطینی بچے اور 7 ہزار خواتین نے جام شہادت نوش کیا ۔ غزہ کی 70 فیصد عمارتیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ 23 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 19 لاکھ آبادی بے گھر ہوگئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر پانی بند کردیا ۔ غذائی اشیاء کی قلت سے فلسطینی پریشان ہیں۔ بھوک کو اسرائیل ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ فلسطینی خواتین اپنے شیرخواروں کو دودھ پلانے سے بھی قاصر ہیں۔ فی الوقت غزہ میں 50 ہزار حاملہ خواتین ہیں۔ ہر روز اسرائیل اوسطاً 150-200 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے جبکہ یومیہ 180 فلسطینی بچے پیدا ہورہے ہیں۔ وہاں کی داستانیں اس قدر دردناک ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں ڈاکٹر سندیپ پانڈے نے میگسیسے ایوارڈ اور اپنی ڈگریاں واپس کر کے ظالم اسرائیل اور اس کے آقاؤں کو بتادیا کہ انسانیت ہی سب سے اہم ہے۔
[email protected]