۲۵؍نومبر کو یہ دردناک خبر ملی کہ مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب قبلہ مجتہد نے زندگی کی آخری سانس لے لی ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا کا خانوادہ اہل علم کا تھا ،خاص طور پر ان کے بڑے بھائی مولاناسیدکلب عابد صاحب سے اچھی خاصی واقفیت رہی تھی ، جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہؤا، انہوں نے شفقتیں نچھاور کیں اور بڑی محبت کا معاملہ کیا، وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر بھی تھے ،اور مسلم یونیورسٹی میں ڈین رہ چکے تھے ،بڑے ذی علم اور بڑی رکھ رکھاؤ کی شخصیت تھی ،آخری سانس تک وہ بورڈ کے نائب صدر رہے ،ان کے چھوٹے بھائی مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب قبلہ تھے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق صاحب قبلہ کا چھوٹے بھائی کی حیثیت سے تعارف کرانا ’’ بات اچھی تو ہے لطیف نہیں‘‘ ۔ مولانا خود عالمانہ وقار واعتبار کی علامت تھے ،دینی علوم پر ان کی بڑی گہری گرفت تھی ،اور پاــک پروردگار نے اس کے اظہار و بیان کا بے پناہ سلیقہ دیا تھا،زبان پر اتنی قدرت تھی کہ پرانی بات کو بھی اپنے انداز و آہنگ میں کہہ جاتے ،تو محسوس ہوتا تھا کہ ایک نکتہ ہاتھ آگیا،ان کی تقریر مختصر ہو یا طویل ،دل پر گہرا نقش چھوڑتی تھی ،ایک تو حضرت قبلہ کے گہر بار نکتے اور پھر ان کی لکھنؤی زبان !،سونے پہ سہاگہ، ’’ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ‘‘ ،حضرت قبلہ مجلس پڑھنے کیلئے اور تقریر کرنے کیلئے نہ جانے دنیا میں کہاں کہاں گئے،جہاں گئے اپنا رنگ چھوڑ آئے ؎*ابھی خزاں تھی ابھی لہلہا اٹھا گلشن* *میں اپنا رنگ تخیل چمن پہ ڈال آیا* وہ بولتے نہیں موتی رولتے تھے،قرآن و حدیث ان کا مرکز فکر و نظر تھا ،ملت کے مسائل پر غور و فکر ان کا مزاج تھا اوروہ تعلیم کو شاہ کلید سمجھتے تھے،اور یقین رکھتے تھے کہ قوم نے تعلیم حاصل کر لی تو سارے بند دروازے واہو جائیں گے ،تعلیم کے سلسلہ میں بھی ان کے بہت سے ہند و بیرون ہندسفر ہوئے،وہ علم اور تعلیم کے موضوع پر بھی جب بولتے تو یہ خشک موضوع بھی ہرا بھرا ہو جاتا اور لوگ بڑی دلچسپی سے ان کی باتیں سنا کرتے تھے۔اتحاد ملت ان کا مشن تھا اور اس کے لئے وہ اپنی سطح پر جد و جہد کرتے رہتے تھے ،جب انہوں نے کالج کھولا تو اس کا نام ’’یونٹی کالج ‘‘رکھا جو ان کے فکر کا آئینہ دار تھا ،انہوں نے ’’ایرا‘‘ میڈیکل کالج بھی قائم کیا ،جہاں تک میری معلومات ہے وہ اس کالج کے ’’ بورڈ آف ٹرسٹیز ‘‘کے رکن نہیں تھے، کالج والے انہیں ’’سرپرست ‘‘کہا کرتے تھے ،اس کالج کی ابتدا سے لے کر عروج تک لگے رہے اور خون جگر نچوڑ کر آبیاری کر دی ۔اللہ کا فضل ہے یہ میڈیکل کالج بھی تناور درخت بن چکا ہے۔اس کے علاوہ ’’یونٹی مشن اسکول ‘‘لکھنؤ اور ’’یونٹی صنعتی تربیتی مرکز علی گڈھ‘‘ قائم کیا،جو آج بھی بر سرعمل ہے، پہلے انہوں نے توحید المسلمین ٹرسٹ بنایا اور اسی کے تحت یہ سارے ادارے کام کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم زمانہ لوگوں کی خدمات یا معلومات کا اعتراف مشکل سے ہؤا کرتا ہے ،اور ہم زمانہ لوگوں کے کاموں میں پخ لگانے کی عادت رہا کرتی ہے ،مگر اس سلسلہ میں قبلہ ڈاکٹر صاحب کا مزاج اعتراف اور برملا اعتراف کا تھا ۔کانگریس گورنمینٹ کے زمانہ میں جب جناب کپل سبل وزیر تعلیم (ایچ آر ڈی منسٹر ) تھے تو انہوں نے’’ رائٹ ٹو ایجوکیشن ‘‘ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ،میں نے اس کی شدید مخالفت کی ، اس کے خلاف مختصر رسالہ بھی لکھا ،جس میں ایسے جملے بھی تھے کہ اس بل کے بعض حصے آئین ہند کو نظر انداز کر کے لکھے گئے تھے، مگر کون سنتا ہے ،فغان درویش!پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل پاس ہو گیا ،اور ایکٹ بھی بن گیا ،میں نے ہمت نہیں ہاری ،اس ایکٹ کے خلاف ہنگامہ کرتا رہا اور ساتھیوں کوساتھ لے کر دوڑ بھاگ بھی جاری رہی ،اس دوڑبھاگ کی لانبی کہانی ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایکٹ میں ترمیم کی گئی ،اور مدرسہ اور ویدک پاٹھ شالہ کو تعلیمی ادارہ مان لیا گیا ۔ اس سلسلہ میں میری جو تحریریں شائع ہوئیں یا جو چیزیں خط کی شکل میں میں نے ملک کی مشہور شخصیتوں کو بھیجا ان میں ایک ہمارے ڈاکٹر صاحب قبلہ بھی تھے ،وہ میری چیزوں کو پڑھتے رہے ــــــــــــــــ بمبئی میں مسلم پرسنل لابورڈ کا اجلاس ہؤا ،اجلاس عام۲۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو آزاد میدان میں تھا ،قبلہ ڈاکٹر صاحب کی تقریر ہوئی ۔اجلاس کا عنوان کچھ بھی ہو ،ہمارے ڈاکٹر صاحب بولتے بولتے تعلیم پر ضرور بول جاتے تھے،اس د ن انہوں نے قانون حق تعلیم (رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ) کو موضوع سخن بنایا اور فرمایا کہ ’’ ہم لوگ اس قانون سے بے خبر تھے ،اللہ کے ولی نے بہت تفصیل سے ان باتوں کو بتایا ،تب سمجھ میں آئیں اور وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے سربراہ میں سے ہیں ‘‘۔بعد میں میں نے عرض کیا کہ میں تو خاموش کام کرتا ہوں ،اس اشتہار کی ضرورت تونہ تھی ،جواباً فرمایا کہ یہ اشتہار نہیں اظہار حقیقت تھی اور میں اظہار حقیقت میں بخل سے کام نہیں لیتا ۔ بابری مسجد کے سلسلہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف واضح تھا ،ان کی رائے الگ تھی، ایک موقعہ ایسا آیا کہ وہ کسی غیر ملکی سفر پر تشریف لے جا رہے تھے ،چلتے چلتے کسی صحافی سے اظہار رائے کر دیا ،ہمارے ڈاکٹر صاحب تو سات سمندر پار جا چکے تھے ،اگلے دن ان کی رائے اخبارات کے صفحۂ اول پر آ گئی ،میں دہلی تھا ،صحافیوں نے مجھے گھیرا، اور سوالات کی بوچھار کر دی ۔میں جواب دے کر نکل تو گیا ،مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملہ کو مجھے اور بورڈ کو جھیلنا پڑا ۔ڈاکٹر صاحب مہینوں غیر ملکوں میں رہے، کئی لکھنے والوں نے اس موضوع کو لیا، اور بورڈ پر طرح طرح کے سوالات جڑ دیئے، بہر حال ان کی عدم موجودگی میں یہ مرحلہ بھی گذر گیا ۔یہ بھی ایک مثال ہے ان کے اظہار حقیقت میں جری ہونے کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا اجلاس بھوپال میں ہورہا تھا اور ہمارے ڈاکٹر کلب صادق صاحب قبلہ مجتہد جلوہ افروز تھے ممبران نے بابری مسجد پر ان کے بیان کوموضوع گفتگو بنایا اور بورڈ کے موقف سے بالکل علیحدہ رائے دینے پرگرفت کی ۔ جمہوریت کازمانہ ہے ،کسی کو اظہار رائے سے روکنا بھی مشکل ہے۔میرے لئے معاملہ بڑا نازک تھا ڈاکٹر صاحب کا دل سے احترام کیا کرتا تھا اور وہ بورڈ کے نائب صدر تھے میرا ذہن کشمکش میں مبتلا تھاجسے ڈاکٹر صاحب قبلہ نے فوراًحل کردیا، خلاف توقع انہوں نے ہاتھ جوڑلئے اور فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی حالانکہ وہ بیان میںنے ذاتی طور پر دیا تھا بہرحال مجھے اجتماعیت کاخیال رکھناچاہئے تھامیں معافی چاہتاہوں، آئندہ خیال رکھونگا،ساری زبانیں خاموش ہوگئیں اورڈاکٹر صاحب نے اس اقرار کاخیال رکھا اور جب تک مقدمہ چلتارہا، بابری مسجد پر انکا کوئی بیان نظر سے نہیں گذرا۔ یہ ان کے عظمت کی بات تھی ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بابری مسجد دیدی جائیگی توہندومسلم تعلقات اچھے ہوجائیںگے اورخیر سگالی کاپیغام جائیگا۔ بہر حال یہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کانقطہ نظر تھا،میری رائے یہ تھی کہ جس طرح ظلم کی فضابن چکی تھی اور ذہنوں میں نفرتوں کی لہریں چل رہی تھیں ایک کیا ایک سو مسجدیں بھی دیدی جائیں تو بھی محبت کے رشتے قائم نہیں ہوں گے ،بیشک کچھ لوگ خیر سگالی کی باتیں کرتے تھے،قومی یکجہتی کے نعرے بھی لگتے تھے مگر ؎التفات یادتھاایک خواب آغازوفا* *سچ ہؤا کرتی ہیںان کی خوابوں کی تعبیریں کہیں ۷۲؍سال گذرگئے سیکڑوں مسجدیں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیاکے تحت ویران پڑی ہیں آخر کون ساجذبہ ہے یا کون سی مجبوری ہے؟ کہ ان مسجدوں کومسجدوالوں کے حوالہ نہیں کیاگیا ان میں نماز تو نہیں ہی ہورہی ،مگر اکثر میں غیر اخلاقی حرکتوں کادور دورہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ بیمار پڑے ،مرض کا حملہ بڑا سخت تھا ،’’ ایرا‘‘ میڈیکل کالج کی پانچویں منزل پر ان کی رہائش تھی ،کئی کمرے اور صحن ان کی خدمت میں تھے اور سامنے دور نظر تک جنگل۔فضا بہت صاف تھی مزاج کا خیال رکھتے ہوئے منتظمین نے صحن میں پھول کے گملے رکھ دئے تھے، میں، مولاناخالد رشیدفرنگی محلی اور مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب رحمانی عیادت کیلئے پہونچے ،دیکھا تو آنسو نکل پڑے !ہڈی چمڑا ہو گئے تھے، کمزوری بہت تھی ،مگر دماغ بالکل حاضر اور طبیعت کی ظرافت اپنی جگہ قائم ،میں نے صحت کا حال پوچھا تو کہا’’ بوریہ بستر بندھ چکا ہے ،ٹکٹ کٹنے کی دیر ہے‘‘جو کلمات مجھے کہنے چاہئے تھے کہے ،اور دکھے دل کے ساتھ واپس آ گیا ،کئی دفعہ وہاں جانا ہؤا ،عیادت تو کر لی مگر مایوسی ہاتھ لگی ۔نومبر ۲۰۱۹ء کی بات ہوگی عیادت کو حاضر ہؤا،تو محسوس ہؤا کہ صحت قدرے بہتر ہے ، طاقت بھی تھوڑی سی آ گئی ہے،میں روکتا رہا مگر وہ اٹھ بیٹھے،اور چائے وائے کی ہدایت دی ،میں نے بہت روکا ،وہ کہاں رکنے والے تھے، صحت کا حال پوچھا تو جواباً کہا ؎ میں دو قدم بھی تیرے ساتھ چل نہیں سکتاہماری یاد ہی دو چار گام لیتا جا اندازہ لگائیے کہ لانبی بیماری کے باوجود ذہن اور حافظہ اچھی طرح کام کر رہا تھا، ان کی حاضر دماغی دیکھی،تو تھوڑی دیر کیلئے مجھ میں بشاشت آ گئی، الفاظ میں کیا طاقت ہوتی ہے، اشعار میں کتنا دم ہوتا ہے اندازہ لگا لیجئے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ ، مگر مرض نے ان کی طاقت چھین لی تھی ، اور جسم پر گوشت برائے نام رہ گیا تھا ،اندازہ یہ ہؤا کہ کسی وقت ان کے انتقال کی خبر آ سکتی ہے ،اور ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۰ء کو وہ اندوہناک خبر آ ہی گئی ؎سدا رہے نام اللہ کا…پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ