ڈبلیو ایچ او ٹیم کی چینی میزبانوں کیساتھ ورچوئل میٹنگ

,

   

l اطالوی معیشت کی بحالی کیلئے 38.8 بلین یورو کا پیاکیج l کئی برازیلی ہاسپٹلس میں آکسیجن کی قلت
l آسٹریلیا میں دوسرے روز بھی کووڈ کا کوئی نیا کیس نہیں l امریکہ میں بائیڈن کیلئے مشکل حالات

نیویارک: عالمی صحت تنظیم کی قیادت میں وہ ٹیم جو کوروناوائرس کی ایسی تحقیقات کررہی ہے جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ وائرس آخر شروع کہاں سے ہوا۔ ووہان میں مذکورہ ٹیم اپنے چینی میزبانوں کے ساتھ ورچوئل میٹنگس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور جس پر بہت جلد عمل آوری بھی کی جائے گی۔ یاد رہیکہ چین کا شہر ووہان ہی وہ مقام ہے جہاں سے کوروناوائرس پھیلا۔ یہ بات دنیا کا اب ہر فرد جانتا ہے کہ چین میں بندر، کیڑے مکوڑے، سانپ بچھو، کتے، بلیاں، چوہے اور چمگاڈر بھی کھائے جاتے ہیں اور ان کے گوشت کا انسانی جسم اور ماحولیات پر جو اثر ہورہا ہے وہ اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جہاں تک یوروپ کا سوال ہے تو وہاں ہنگری کے ایک ریگولیٹر نے یہ اشارہ دیا ہیکہ کچھ ہی دنوں میں کوروناوائرس سے متعلق کچھ حقائق ضرور منظرعام پر آئیں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ آیا چین میں تیار کردہ ویکسین قابل استعمال ہے یا نہیں۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اور بونے سرکاری ریڈیو پر بیان دیتے ہوئے یہ بات کہی۔ دوسری طرف اطالوی حکومت نے اپنی بگڑی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کیلئے 38.8 بلین یوروز کا پیاکیج منظور کیا ہے۔ جرمن کی چانسلر انجیلا مرکل چاہتی ہیں کہ کوویڈ۔19 پر مؤثر طور پر قابو پانے کیلئے مؤثر اقدامات بھی کئے جانے چاہئے کیونکہ جرمنی بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کوروناوائرس سے ہلاکتوں کی قابل لحاظ تعداد ہے۔ جہاں تک رسو کا سوال ہے تو اس نے اپنی اسپوٹنک ویکسین کیلئے منظوری حاصل کرنے آئندہ ماہ یوروپی یونین سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس نے سرحدوں پر کنٹرول کومضبوط بنانے کیلئے رات کے کرفیو میں مزید اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے کم و بیش 15 دنوں تک تجرباتی طور پر رات کا کرفیو نافذ کیا جائے گا۔ ایشیاء پیسیفک کی بات کی جائے تو گزشتہ 10 ماہ کے دوران چین کی معیشت کو بھی قابل لحاظ نقصان پہنچا ہے جبکہ اس کے شمال مشرقی علاقہ میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد 28 ملین افراد اس کی زد میں آگئے تھے۔ آسٹریلیا کیلئے یہ ایک اچھی خبر ہے جہاں مسلسل دوسرے روز بھی کوویڈ۔19 کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے کیونکہ داخلی سرحدوں اور عوام کی حرکات و سکنات پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں جس کے اطمینان بخش نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اب چلتے ہیں امریکہ کی طرف جہاں نومنتخبہ صدر جوبائیڈن نے کوویڈ۔19 کیلئے ٹیکہ اندازی کے پروگرام کو مزید مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جوبائیڈن ایک ایسے وقت امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لیں گے جب ملک کوویڈ۔19 کی وباء سے نبردآزما ہے۔ برازیل کے متعدد ہاسپٹلس میں آکسیجن کی قلت بتائی جارہی ہے اور امریکہ سے اپیل کی گئی ہیکہ وہ اس مصیبت کی گھڑی میں برازیل کی مدد کیلئے آگے آئے۔ جنوبی افریقہ نے اپنے نئے تعلیمی سال کیلئے اسکولوں کی بازکشادگی کو مزید آگے بڑھادیا ہے تاکہ اسکول میں آنے والے طلباء کے ذریعہ کوویڈ۔19 مزید پھیل نہ سکے۔ جہاں تک برطانیہ کا سوال ہے تو یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ لندن اس وقت سخت لاک ڈاؤن میں ہے۔ ماہ نومبر سے ہی برطانیہ کی معیشت زوال پذیر ہے جبکہ کوویڈ کے مزید سخت رہنمایانہ اصولوں کے نفاذ کے بعد برطانیہ میں حالات مزید دگرگوں ہوچکے ہیں۔