سیاست فیچر
ڈونالڈ جے ٹرمپ نے ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیریس پر غیر معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے امریکی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی واپسی کوئی ایسی ویسی کامیابی نہیں ہے بلکہ اسے ایک شاندار واپسی ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی ٹرمپ امریکہ کے وہ دوسرے صدر بن گئے ہیں جنہوں نے ایک کامیابی اور پھر شکست کے بعد کامیابی حاصل کی۔ اس معاملہ میں ہم Grover Cleveland کی مثال پیش کرسکتے ہیں جنہیں امریکہ کے 22 ویں اور 24 ویں صدر رہنے کا اعزاز سب سے پہلے حاصل ہوا۔ انہوں نے 1885 تا 1889 پہلی میعاد مکمل کی اور 1893 تا 1897 دوسری میعاد مکمل کی۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکثر polls میں اس بات کے اشارے دیئے گئے تھے کہ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیریس اور ریپبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ٹکر کا مقابلہ ہے۔ لیکن منگل کی رات جیسے جیسے نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے جلد ہی یہ واضح ہونا شروع ہوگیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نہ صرف وائٹ ہائوں کا کنٹرول کھودے گی بلکہ ہائوز اور سینیٹ دونوں میں بھی اس کا کنٹرول ختم ہوجائے گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ٹرمپ نے 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 312 اور کملا ہیریس نے 226 وٹ حاصل کئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کو اندازوں اور قیاس آرائیوں کے برعکس کملا ہیریس پر بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے جملہ 76990254 (50.19 فیصد) ووٹ حاصل کئے جبکہ کملا ہیریس کو 73912294 (48.18 فیصد) ووٹ مل سکے۔ اس طرح ڈونالڈ جے ٹرمپ ایسے ریپبلکن امیدوار بھی بننے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں جنہیں 20 برسوں میں عوام نے سب سے زیادہ ووٹ دیئے ہیں۔ نو منتخب صدر ٹرمپ کی جیت کو امریکی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس میں محنت کش طبقے کے امریکیوں کی کثیر نسلی اتحاد نے سابق ریلٹی ٹی وی اسٹار کو ووٹ دے کر دوسری مرتبہ عہدہ صدارت پر فائز کرنے کی راہ ہموار کی جسے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن کے مقابل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ڈونالڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن کے خلاف اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا نتیجہ میں بڑے پیمانہ پر تشدد پھوٹ پڑا تھا اور ٹرمپ کے حامیوں نے 6 جنوری 2021ء کو امریکی کیپٹل پر ہلہ بول دیا تھا۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا سوال ہے انہیں اپنے خلاف دو مواخذوں اور 34 فیلونی کنوکشن کا سامنا کرنا پڑا یعنی انہیں کم از کم ایک مقدمہ میں خاطی یا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ٹرمپ کو حسن اتفاق سے ایسے وقت خاطی قرار دیا گیا تھا جب ان کے دوبارہ انتخاب کی مہم شروع ہی ہوئی تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ ان نقائص کے باوجود اپنی شکست سے متعلق تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے امریکی عوام کی تاریخی تائید و حمایت حاصل کی۔ ٹرمپ نے جو تاریخی اور فیصلہ کن کامیابی حاصل کی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوںنے پانسہ پلٹنے والی 7 ریاستوں میں کملا ہیریس پر شاندار فتح حاصل کی۔ ٹرمپ نے کیرولینا کو جہاں برقرار رکھا ہے وہیں نیوڈا، اریزونا اور تین Blue wall ریاستوں وسکنسن، مشی گن اور پنسلوانیا میں اپنی کامیابی درج کروائی۔ ہاں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے روایتی طور پر ڈیموکریٹک کی تائید و حمایت کرنے والی ریاستوں میں بھی جنہیں عام طور پر Blue States کہا جاتا ہے کملا ہیریس کی بہ نسبت بہتر مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر نیویارک اور نیوجرسی میں انہیں 10-12 پوائنٹس کی برتری حاصل رہی۔ ٹرمپ افریقی امریکیوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہسپانوی نژاد امریکیوں کے ساتھ ساتھ عرب نژاد امریکیوں کی بھی تائید انہیں حاصل رہی۔ ٹرمپ کی دوسرے نسلی گروپوں نے بھی غیر معوملی تائید کی۔ حقیقت میں جب ماضی کے دو صدارتی انتخابات کا تقابل کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا مظاہرہ کملا ہیریس سے بہتر رہا۔ لیکن اس بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کالج ڈگریوں کی حامل سفید فام خواتین ٹرمپ کی تائید و حمایت سے دور ہیں۔ یعنی انہوں نے ٹرمپ کی تائید نہیں کی۔ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کی رات جو رپورٹس منظر عام پر آئیں ان میں بتایا گیا کہ ڈیموکریٹس ابتدائی نتائج پر حیرت میں پڑگئے۔ آپ کو یہ بتانا بھی چاہیں گے کہ ڈیموکریٹس نے اپنے صدارتی امیدوار کو ایسے وقت تبدیل کیا جب انتخابی مہم شروع ہونے کو 107 دن باقی رہ گئے تھے۔ ان لوگوں نے 81 سالہ جوبائیڈن کو صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کے لیے مجبور کردیا کیوں کہ اس سے قبل بائیڈن نے صدارتی انتخابی مباحث میں تباہ کن مظاہرہ کیا۔ بائیڈن کے بارے میں یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ وہ پنی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر گرفت رکھنے سے قاصر ہیں۔ وہ کہنا کچھ چاہ رہے تھے اور کچھ کہہ رہے تھے جس سے ڈیموکریٹس کے ہمدردوں اور عطیہ دہندگان میں مایوسی پیدا ہوگئی۔ نتیجہ میں جوبائیڈن نے کملا ہیریس کی تصدیق کردی اور کہا کہ کملا ہیریس مضبوط امیدوار ہیں جو امریکہ کی برتری کا سلسلہ برقرار رکھ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیموکریٹس نے ایگزٹ پولس پر بہت زیادہ بھروسہ کیا اور یہ سمجھ لیا کہ کملا ہیریس کی کامیابی یقینی ہے۔ حالانکہ کملا ہیریس پرائمریز کے پہلے مرحلہ میں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انہیں ہی صدارتی انتخابات میں کامیابی ہوگی، جو Polls میں بڑے اشارے دیئے گئے، ان میں سے ایک بڑا اشارہ یہ تھا کہ چار میں سے تین امریکیوں کا سوچنا تھا کہ امریکہ موجودہ انتظامیہ میں غلط ٹریک پر گامزن ہے۔ مختلف Polls میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی جن مسائل پر تشویش اور فکر میں مبتلا ہیں ان میں اقتصادی حالت، ایمگریشن اور افراط زر (مہنگائی) کے مسائل شامل ہیں اور ان مسائل کے حل کے بارے میں جب پوچھا گیا تو امریکیوں کا کہنا تھا کہ ان مسائل کو ڈیموکریٹس سے کہیں زیادہ ریپبلکنس بہتر انداز میں حل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوائیڈن کی مقبولیت میں بھی زبردست گراوٹ آئی جس کا خمیازہ صدارتی امیدوار بننے والی نائب صدر کملا ہیریس کو بھگتنا پڑا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سیاہ فام رائے دہندوں میں کملا ہیریس کے تئیں جوش و خروش میں کمی دیکھی گئی اور ان کی رائے دہی کا اوسط بھی کم رہا جس کا اندازہ قطعی نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔ کملا ہیریس کو آفریقی اریکی مردوں کی جو تائید و حمایت حاصل ہوئی اس سے دگنا تائید و حمایت ٹرمپ کو حاصل رہی اور بائیڈن کو 2020ء میں سیاہ فام باشندوں کے جتنے ووٹ حاصل ہوئے تھے اس مرتبہ کملا ہیریس کو کم از کم 10 پوائنٹس کم حاصل ہوئے۔ 2020ء میں جوبائیڈن نے ٹرمپ کے خلاف سیاہ فام باشندوں میں سے 9 کے ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس مرتبہ عرب نژاد امریکیوں کی تائید و حمایت بھی ڈیموکریٹس کو نہ مل سکی۔ نتیجہ میں کملا ہیریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر مشی گن وغیرہ میں ٹرمپ کے آگے رہنے کی وجہ یہی رہی کہ عرب نژاد امریکی اسرائیل۔ فلسطین جنگ میں بائیڈن انتظامیہ کی اختیار کردہ پالیسیوں اور حکمت عملیوں سے مایوس تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے سب سے بڑا دھکہ ہسپانوی نژاد امریکیوں سے لگا۔ 45 فیصد ہسپانوی نژاد امریکیوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کو ترجیح دی۔ کملا ہیریس کی مہم کی سب سے مایوس کن بات یہ رہی کہ 50 ریاستوں میں پھیلے ہوئے 3144 کائونٹیز میں ان کا مظاہرہ وہ نہیں رہا جو انہوں نے 2020ء میں کیا تھا۔