ایملی میک کلاسکی
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں رائے دینی ہو تو سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ وہ کس کی صحبت میں رہتا ہے۔ اس کے اطراف و اکناف کون سے لوگ ہیں۔ اس کے دوست احباب کا دائرہ کیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جو پرانے اور نئے ارب پتی دوستوں کے گھیرے میں ہیں اس سچائی کا مظہر ہے۔ یعنی مذکورہ محاورہ ڈونالڈ ٹرمپ پر پورا اترتا ہے۔ امریکی انتخابات سے پہلے ہمارا یہ احساس تھا کہ ارب پتی شخصیتں، ٹرمپ کی دوسری میعاد صدارت کے بڑے فاتح ہوں گے یعنی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت سے اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا تو وہ ان کے دوست اور تائید و حمایت کرنے والے ارب پتی شخصیتیں ہی ہوں گی کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کو یقینی بنانے ریکارڈ توڑ پیسہ لگایا۔ با ہم نے پچھلے چند ہفتوں میں کئی ایک تبدیلیوں کو محسوس کیا اور ہمارا احساس پختہ یقین میں بدل گیا کہ ٹرمپ اپنے ارب پتی دوستوں کے نہ صرف نرغہ میں ہیں بلکہ وہ (دوست) ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کو یادگار بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے اور بے تحاشہ رقم خرچ کریں گے جبکہ بائیڈن انتظامیہ نے اس کے لیے 702 ملین ڈالرس مالیتی وفاقی فنڈس جاری کرنے کی پیشکش کی اور اس کے عوض اقتدار کی منتقلی اور تقریب حلف برداری کے لیے عطیات کو محدود کرنے کا معاہدہ کرنے کی بات کی۔ ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کی ٹیم پر زور دیا کہ وہ عطیہ دہندگان کے ناموں کا انکشاف کریں۔ جواب میں ٹرمپ کی ٹیم نے بتایا کہ وہ (ٹرمپ) اپنے عطیہ دہندگان کے ناموں کا انکشاف کریں گے لیکن کب کریں گے یہ نہیں بتایا۔ ان حالات میں اب ٹرمپ کے لیے نامعلوم عطیہ دہندگان سے لا محدود فنڈس حاصل کرنے کا دروازہ کھل گیا ہے۔ لیکن ہم اس بارے میں تھوڑا سا جانتے ہیں کہ ٹرمپ اپنی تقریب حلف برداری کے لیے کسی طرح مالیہ فراہم کررہے ہیں لیکن بد قسمتی سے یہ بالکل بھی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ٹرمپ کی ٹیم نے ان مراعات کے ساتھ تخلیقی صلاحیت حاصل کی ہے جس کے نتیجہ میں انہیں بڑی رقومات (بھاری عطیات) کی پیشکش موصول ہوئی ہیں مثال کے طور پر جو شخصیتیں ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے متعلق کمپنی کو ایک ملین ڈالرس عطیہ دیں گی یا اس کمیٹی کے لیے دو ملین ڈالرس کے عطیات جمع کریں گی تو پھر انہیں 8 افتتاحی ایونٹس کے 6 ٹکٹس دیئے جائیں گے جس میں استقبالیہ میں شرکت کا موقع بھی شامل ہے جہاں ایسی شخصیتوں کو ٹرمپ کابینہ کے ساتھ تصاویر لینے کا موقع فراہم کیا جائے گا ساتھ میں منتخب صدر اور نو منتخب نائب صدر کے علاوہ دونوں کی بیویوں کے ساتھ پر تکلف عشائیہ میں مدعو بھی کیا جائے گا حالانکہ 200 امریکی ڈالرس سے زائد کے تحائف دینے والوں کے ناموں کا انکشاف کرنا ضروری ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ارب پتیوں کو اپنے قریب رکھا ان کے بارے میں یہ خدشات ظاہر کئے گئے کہ آج وہ ٹرمپ کی مہم میں دل کھول کر چندہ (عطیات) دے رہے ہیں اور پھر ان کی کامیابی کی صورت میں اس مالی مدد کا پھر پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم سے ارب پتیوں کی دلچسپی، ان پر عطیات کی بارش اور پھر تقریب حلف برداری کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز دینے والوں کے لیے پر کشش ترغیبات اس بات کا اشارہ ہے کہ ٹرمپ کا دور صدارت ان کے حامی ارب پتیوں کے لیے فائدہ بخش بلکہ منافع بخش ثابت ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے ان میں سے کئی ارب پتیوں کو اپنے انتظامیہ میں خدمات انجام دینے کے لیے چنا بھی ہے۔ ذیل میں ہم ان چند ارب پتیوں کی فہرست پیش کررہے ہیں جن کا ڈونالڈ ٹرمپ نے کلیدی عہدوں کے لیے انتخاب کیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک اور ارب پتی لنڈا میک موہن کو وزیر تعلیم بنانے کا اعلان کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2.6 ارب ڈالرس کے مالک ہیں۔ اب بات کرتے ہیں ڈاوگ برگم (1.1 ارب ڈالرس دولت کے مالک) اسی طرح مشیر برائے مشرق وسطی جس شخصیت کو نامزد کیا وہ مساد باولوس ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ارب پتی ہیں۔ نائب وزیر دفاع کے لیے اسٹیفن فینیرگ کو نامزد کیا گیا جو 5 ارب ڈالرس مالیتی دولت کے مالک ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے وارن اسٹیفن کو برطانیہ کے لیے امریکی سفیر نامزد کیا جو 3.3 ارب ڈالرس کے مالک ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے چارلس کشنر کو امریکی سفیر برائے فرانس نامزد کیا جو 2.9 ارب ڈالرس کے مالک ہیں جبکہ Jared Isaacman جنہیں ٹرمپ نے اڈمنسٹریٹر ناسا نامزد کیا گیا ہے۔ اس طرح کیلی لوئفلر (انہیں اسمال بزنس اڈمنسٹریٹر نامزد کیا گیا) 1.1 ارب ڈالرس کے مالک ہیں۔ ایک اور ارب پتی David Sacks کو AI and Crypto CZAR کی ذمہ داری ہے جبکہ ایک ارب ڈالرس اثاثوں کے مالک Steven Witkoff کو ٹرمپ نے قومی قاصد برائے مشرق وسطی مقرر کیا ہے اور اس معاملہ میں ٹرمپ کو مت بھولئے وہ خود ارب پتی ہیں اور ان کی دولت کا تخمینہ 6.2 ارب ڈالرس لگایا گیا ہے۔
یہ عہدے سرکاری نہیں ہیں ہاں ایلون مسک اور راما سوامی کے عہدوں کی سنیٹ کی جانب سے تصدیق کی جانی چاہئے۔ ٹرمپ کی مجوزہ کابینہ کی مجموعی دولت 11.8 ارب ڈالرس ہے جبکہ صدر بائیڈن کی موجودہ کابینہ کی مجموعی دولت 118 ملین ڈالرس بتائی گئی ہے اور اگر غیر کابینی ارکان جیسے ایلون مسک، راما سوامی اور اسٹیفن کی دولت کو اکٹھاکریں تو 382.2 ارب ڈالرس ہوگی جو 172 ممالک کی قومی مجموعی پیداوار سے کہیں زیادہ ہے۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صنعت کار و تاجرین دوست ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کے دوسرے دن ہی دنیا کے دس امیر ترین شخصیتوں (جن میں سے 8 امریکی ہیں) ان کی دولت میں 64 ارب ڈالرس کا اضافہ ہوا جبکہ 4 نومبر (الیکشن سے ایک دن قبل) اور 12 نومبر کے درمیان امریکہ کے 815 ارب پتیوں کی دولت میں 276 ارب ڈالرس کا غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ایلون مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے 250 ملین ڈالرس خرچ کئے اور انہیں اس کے ثمرات بھی ملنے لگے ہیں۔ ٹرمپ کی فتح کے بعد سے اب تک ایلون مسک کی دولت میں 66 فیصد اضافہ ہوا اور 400 ارب ڈالرس دولت کے حامل وہ پہلے شخص بن گئے۔ یہ بھی امید کی جارہی ہے کہ وہ آنے والے چند برسوں میں (ٹرمپ کی دور صدارت میں ہی) 1000 ارب ڈالرس کے مالک بن جائیں گے۔