پی رمن
عام انتخابات 2024 جو ہمارے ملک کے 18 ویں عام انتخابات تھے تاریخ میں اس لئے بھی نمایاں طور پر رقم کئے جائیں گے کیونکہ ان انتخابات میں ان تین نظریات کو عوام نے فیصلہ کن طور پر رد کردیا جس کی بنیاد نفرت ، مذہبی خطوط پر عوام کی تقسیم صرف اور صرف نریندر مودی کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کرنے کی روش پر رکھی گئی تھی اور ان تین نظریات کو بی جے پی کامیابی کی چپس کے طور پر استعمال کررہی تھی ۔ نریندر مودی کے بارے میں سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پچھلی دو معیادوں کے دوران کیسے آمریت کا مظاہرہ کیا ان کے اشاروں کنائیوں سے لیکر لب و لہجہ سے تکبر جھلکتا رہا ۔ ان کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ کسی کی پرواہ نہیں کررہے تھے کسی کو خاطر میں نہیں لارہے تھے وہ اس غلط فہمی بلکہ خوشی فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ سارا نظام ان کے اطراف گھوم رہا ہے ان کی مرضی سے چل رہا ہے ۔ مرکزی ایجنسیاں سب کی سب ان کے ایک حکم کی محتاج ہیں جس کے نتیجہ میں ملک میں ایک لیڈر ایک پارٹی سسٹم سے متعلق اپنے آمرانہ پراجکٹ کو نافد کرنے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ 2019 میں مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے دوسری میعاد میں بی جے پی کی کامیابی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 کو ختم کردیا۔ مودی خود کے ایک مضبوط و طاقتور لیڈر ہونے کا دعوی کرنے لگے یہاں تک کہ بی جے پی قائدین اور مودی بھکتوں نے بھی یہی کہنا شروع کیا مودی ہے تو ممکن ہے لیکن اب عام انتخابات 2024 میں بی جے پی اپنے بل بوتے پر 272 کے جادوئی عدد کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی وہ 240 تک ہی سمٹ کر رہ گئی ۔ این ڈی اے میں پہلے ہی سے شامل اس کی حلیف جماعتوں نے 23 حلقوں میں کامیابی حاصل کی اگر تلگودیشم 16+2 ( اس میں آندھراپردیش میں تلگودیشم کی حلیف جناسینا کے دو ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں ) اور چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی جے ڈی یو کے 12 ارکان مودی حکومت کی تائید نہ کرتے تو وہ کسی بھی طرح حکومت نہیں بناسکتی ایک طرح سے چندرا بابو اور نتیش کمار نے مودی اور بی جے پی پر بڑا احسان کیا ہے جس کے نتیجہ میں خود کو طاقتور و بااثر سمجھنے والے مودی کو ون نیشن ون الیکشن ، یکساں سیول کوڈ اور اپنے دوسرے متنازعہ و من مانی فیصلوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور زوال کی جانب مودی کا یہ پہلا قدم ہے انہوں نے ایک چیف منسٹر اور ایک وزیراعظم کی حیثیت سے کبھی بھی کسی سے صلاح و مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی جب چاہا جو چاہا ملک پر اپنا فیصلہ مسلط کیا چاہے وہ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اور کورونا کی عالمی وباء کے دوران نافذ کردہ لاک ڈاؤن کیوں نہ ہو ہمیشہ مودی نے اپنی من مانی کی جیسے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔ مودی اب چندرا بابو نائیڈو ، نتیش کمار اور اپنے دوسرے حلیفوں سے مشورے کے بغیر کوئی اہم قدم نہیں اُٹھاسکتے یہ اور بات ہیکہ این ڈی اے کی دیگر حلیف جماعتیں مودی اور امیت شاہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے ویسے بھی مودی، مخلوط حکومت ، مشاورت و اتفاق رائے اور سمجھوتہ کے کلچر سے واقف نہیں ہیں حالانکہ یہ مخلوط سیاست کے اہم ستون ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ماضی میں ہمیشہ مودی اور امیت شاہ کابینہ کی فہرست تیار کرتے تھے اور اپنے پسند کے مطابق وقت پر اس کا اعلان بھی کیا کرتے تھے لیکن اب مودی این چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار سے مشورہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہم سب جانتے ہیں کہ چندرا بابو نائیڈو قومی سیاست میں ایک ایسے مذاکرات کے طور پر جانے جاتے ہیں جو سامنے والے کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو کی پارٹی تلگودیشم کے 16 ارکان پارلیمنٹ ہیں ان کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اسپیکر لوک سبھا کا عہدہ اپنی پارٹی کیلئے حاصل کرنے کی کوششوںمیں مصروف ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مودی کابینہ میں ان کے دو وزیر ہیں ایک کابینی درجہ کا اور دوسرا مملکتی درجہ کا ، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو نے مخلوط حکومت کیلئے رابطہ کمیٹی قائم کرنے اورمشترکہ اقل ترین پروگرام کے ساتھ ساتھ سرکاری پینلوں میں حلیفوں کو موثر نمائندگی دینے کی تجویز پیش کی ۔ ایک بات ضرور ہیکہ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار مودی حکومت کی بقاء کیلئے ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر اُبھرے ہیں ایسے میں اب دفتر وزیراعظم سے ریاستوں کو اختیارات کی منتقلی عمل میں لائی جاسکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو بابو اور نتیش کمار ملک میں ایک صحتمندانہ قواعد و ضوابط پر مبنی وفاقی تعلقات اور فنڈنگ جیسے ماحول کی واپسی کیلئے رہنمائی کریں گے کیونکہ مودی پر بار بار یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ اس نے اپوزیشن کی زیراقتدار ریاستوں کے ساتھ امتیازی رویہ اختیار کر رکھا خاص طور پر فنڈس کی اجرائی کے معاملہ میں انہوں نے بی جے پی زیراقتدار ریاستوں کو ترجیح دی اور اپوزیشن کی زیراقتدار کو یکسر نظرانداز کردیا اب نائیڈو کے سامنے کئی سوالات ہیں ۔ سب سے پہلا سوال یہ ہیکہ آیا وہ اپوزیشن حکومتوں کے خلاف گورنروں کے بیجا استعمال کی مخالفت کریں گے اور 2014 سے قبل کے راج بھونوں کو بحال کریں گے آیا چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار اس بات کا مطالبہ کریں گے کہ سی اے جے ، سی آئی سی اور سی وی سی جیسے قانون اداروں کو اسی طرح کام کی اجازت دیں گے جس طرح یہ ادارے 2014 سے قبل آزادانہ طور پر کام کیا کرتے تھے اور کیا اب میڈیا آزادانہ و منصفانہ طریقوں سے کام کرے گا ۔ یہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ آیا نائیڈو اس طرح کے کابینی افعال کی واپسی کیلئے اصرار کریں گے جس طرح اٹل بہاری واجپائی اور دیگر وزرااعظم کی حکومتوں میں ہوا کرتے تھے جبکہ مودی کی دو معیادوں میں صرف دفتر وزیراعظم ہی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ آیا چندرا بابو نائیڈو مباحث کی جمہوریت اور پارلیمنٹ سے متعلق جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کی نارمل کارروائی کی بحالی کیلئے کہیں گے ۔ اب تو مودی اور شاہ ایسا لگتا ہے کہ مخلوط حکومتوں کی مجبوریوں کو سمجھ لیا ہے اور خود کو ان مجبوریوں کے تحت ڈھال لیا ہے ۔ مخلوط حکومت میں اجلاس اور داخلی مباحث سے انہیں ماضی میں کبھی سابقہ نہیں پڑا یہ اجلاس اور مباحث مختلف سطحوں پر کئے جاتے ہیں مودی جنہوں نے اکثر ناراض عناصر کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اب اتفاق رائے اور مل جل کر کام کرنے کی بات کرنے لگے ہیں یہ بھی ذرا غور کیجئے ۔ انہوں نے کس طرح ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی سے ملاقات کر کے ان کا آشیرواد حاصل کیا ۔ پچھلے 24 برسوں سے مودی بحیثیت چیف منسٹر اور بحیثیت وزیراعظم اقتدار میں رہے اور ان برسوںکے دوران ان کی کامیابی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دھمکیوں اور لالچ کے ذریعہ حاصل ہوئی اور ان کی ان ہی صلاحیتوں نے انہیں آگے بڑھایا ہے حد تو یہ ہیکہ ان کی ماتحت اعلی بیوروکریسی کو جب جھکنے کا حکم دیا گیا وہ ان کے سامنے رینگنے لگی جبکہ نگرانی کے مختلف ادارے کے عہدیدار تو جیسے ان کے سامنے بے دم ہو کر رہ گئے تھے ۔مودی نے الیکشن کمیشن میں تقررات عاملہ کے مکمل کنٹرول کے تحت لائے یہاں تک کہ کئی دہے قدیم سپریم کورٹ کالیجم کو پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت ختم کردیا گیا جس کے ذریعہ شعبہ قانون میں تقررات کا اختیار عاملہ کو دیا گیا لیکن عدلیہ نے خوش قسمتی سے اسے کالعدم قرار دیا ۔ جس میڈیا ہاوز اور ادارے نے مودی اور ان کی حکومت کو آنکھیں دکھائی انفورسمنٹ کی ایک دو نوٹسوں کے ذریعہ اسے مودی اور حکومت کی تائید و حمایت کیلئے مجبور کیا گیا نتیجہ میں ٹیلی ویژن چیانلوں نے ان کی بیجا تائید و حمایت کا سلسلہ شروع کیا ۔ سوشیل میڈیا کا دائرہ تنگ کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں لیکن چند باہمت و باحوصلہ پرنٹ میڈیا کے مالکین ، نیوز پورٹلس اور یوٹیوب صحافیوں نے دھمکیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ اس مرتبہ مودی نے اپنے ہی انتخابی ریالیوں اور روڈ شوز کا ریکارڈ توڑ دیا ۔ بی جے پی کے چیف منسٹروں نے دہلی کے اخبارات میں مودی کے حق میں اشتہارات کے معاملہ میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی ۔ سرکاری محکمہ جات بھی اشتہارات کے ساتھ آگے آئے ۔ ہر طرف مودی کے ہورڈنگس پوسٹرس دکھائی دے رہے تھے غرض ایک آمر جس طرح کے اقدامات کرتا ہے ویسے ہی اقدامات کئے گئے ۔ اپوزیشن لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا گیا ، کانگریس کے کھاتے منجمد کردیئے گئے لیکن رائے دہندوں نے بڑی خاموشی سے آمریت کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔