ژی جن پنگ اسٹالین کے جانشین

   

شیشیر گپتا
امریکہ اور چین کے درمیان اگرچہ پہلے سے ہی تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے لیکن حالیہ مہینوں کے دوران کورونا وائرس وباء کے پھوٹ پڑنے کے بعد اس تناؤ کی کیفیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر نے ایک مرحلہ پر کورونا وائرس کے لئے چین کو ذمہ دار قرار دیا اور یہاں تک کہا کہ کورونا وائرس چین کی ایک لیباریٹری میں تیار کیا گیا۔ بہرحال امریکی قومی سلامتی مشیر رابرٹ اوبرین نے جمعہ کو چینی حکومت کے خلاف شدید تنقید کی اور چینی صدر ژی جن پنگ کو روس کے خطرناک ڈکٹیٹر جوزف اسٹالین سے تعبیر کیا جس کی پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا۔ امریکی قومی مشیر سلامتی نے صرف چینی صدر کو اسٹالین سے ہی تعبیر نہیں کیا بلکہ یہ بھی انتباہ دیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی انفرادی امریکیوں کو پروپگنڈہ اور ان کے انتہائی رازدارانہ ڈیٹا کے کلکشن کو حاصل کرتے ہوئے ایک معاندانہ مہم چلارہی ہے اور اس کے لئے چین کی بڑی بڑی کمپنیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایسی کمپنیاں ہیں جنہوں نے بہت بڑی سرمایہ کاریاں کررکھی ہیں۔ یہاں تک کہ ہالی ووڈ کو خود سنسر شپ کے لئے مجبور کررہی ہیں۔ رابرٹ اوبریان کا جنہوں نے بیجنگ کے تئیں امریکی حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں کو امریکہ کے غلط حساب کتاب سے تعبیر کیا۔ یہ بھی کہنا ہے کہ چین برسوں سے اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ اس کی سرحدوں سے بہت دور رہنے والے لوگوں کے ذہنوں پر قابو پایا جائے، جبکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی تجارت کو اپنی اجارہ داری و برتری قائم رکھنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔
نیشنل سیکوریٹی اڈوائزر یا مشیر قومی سلامتی سی اوبریان امریکہ میں زندگی کے ہر شعبہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے داخل ہونے سے متعلق کھلے طور پر تفصیلات پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے ہندوستانی ہم منصب اجیت ڈوول ہیں جو دہلی میں قائم دانشورانہ و مفکرانہ ادارے ویویکانندا انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے ’’دشمن ممالک‘‘ میں پی ایل اے انٹلی جنس کی دراندازی یا داخلے کے بارے میں ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے اپنے مقالہ میں جس تک ہندوستان ٹائمس کی رسائی حاصل ہوئی ہے بڑی تفصیل سے پیپلز لیبریشن آرمی انٹلی جنس کی ساخت کے بارے میں بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ پیپلز لیبریشن آرمی انٹلی جنس کیسے جمہوری ملکوں میں پروپگنڈہ کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ساری دنیا اس پروپگنڈہ کو امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور برازیل میں تقسیم کررہی ہے۔ اوبریان یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میں جو غلطیاں ہوچکی ہیں اُن غلطیوں کو سدھارنے کے لئے اقدامات کا آغاز کردیا ہے اور اس سلسلہ میں امریکہ میں چینی اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنائے گئے 6 اقدامات پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ ایریزونا کے فونکس میں لوگوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اوبریان نے پرزور انداز میں یہ بتایا کہ بڑی چینی فرمس اور بیجنگ میں اقتدار پر فائز کمیونسٹ پارٹی کے درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں ہے۔
قومی سلامتی مشیر نے کئی ایک مثالیں پیش کیں جب چین نے پروپگنڈہ کے ساتھ تجارت کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس سلسلہ میں آسٹریلیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ آسٹریلیا جیسے ملک نے کورونا وائرس بیماری یا وباء کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر چینی کمیونسٹ پارٹی نے آسٹریلیائی زرعی اشیاء یا مصنوعات کی خریدی روک دینے کی دھمکی دی۔

اوبریان مزید لکھتے ہیں کہ چینی ایک منصوبہ بند انداز میں عالمی تنظیموں کے سربراہوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں اگرچہ وہ چینی عہدہ دار نہیں ہوتے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی 15 مخصوص ایجنسیوں میں سے چار کے سربراہ چینی ہیں جو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ارکان سے یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اوبریان یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ چین نے ان رہنماؤں کو اس بات کے لئے مجبور کیا کہ وہ اپنے ان عالمی اداروں کو بیجنگ کا طوطہ بنادیں یعنی بیجنگ جو کہے اس پر من و عن عمل کریں اور یہاں تک کہ اپنی سہولتوں یا دفاتر و ہیڈکوارٹرس میں چینی مواصلاتی آلات نصب کریں۔
مثال کے طور پر جب سے انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشنس یونین کے ژاو ہالین نے اپنے اعلیٰ عہدے کا جائزہ حاصل کیا انہوں نے بڑے ہی جارحانہ انداز میں ہوائی کی مصنوعات کی فروخت کو فروغ دیا۔ بین الاقویامی شہری ہوابازی تنظیم کے سکریٹری جنرل فانگ لیو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تائیوان کی شرکت روک دی۔ دوسری جانب ژن جیانگ اور ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے کی جارہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر جو تنقیدیں چین پر کی جاتی ہیں ان تنقیدوں کو روکنے کے لئے سی پی سی نے اقوام متحدہ حقوق انسانی کونسل کی چینی رکنیت کو استعمال کیا۔ اوبریان کے مطابق سی سی پی کی حکمت عملی امریکیوں کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سی سی پی امریکیوں کا انتہائی اہم ترین اور حساس ڈیٹا جمع کررہا ہے۔ آپ کے الفاظ، آپ کے اقدامات، آپ کی خریدی، آپ کہاں ہیں، آپ کے اتے پتہ، صحت سے متعلق آپ کا ریکارڈ، آپ کا سماجی میڈیا پوسٹ، آپ کا متن اور آپ کے دوست احباب کا نیٹ ورک، ارکان خاندان اور ساتھیوں سب کے بارے میں تفصیلات سی سی پی نے جمع کررکھے ہیں۔ سی سی پی نے ہارڈ ویر، سافٹ ویر، مواصلاتی مصنوعات اور یہاں تک کہ جنیٹک کمپنیز کو رعایتیں دیتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل کی ہے جس کے نتیجہ میں کارپوریشنس جیسے Huawei اور ZTE جیسے مسابقتی اداروں کی جانب سے نقصانات برداشت کرتے ہوئے ساری دنیا میں ان کے آلات نصب کئے جارہے ہیں اور ان آلات کے ذریعہ یہ آپ کا ڈیٹا حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔