کرن تھاپر
ہم نے کورونا وائرس کے بارے میں اس قدر زیادہ پڑھا ہے کہ ہمارے ذہن میں اس وائرس کے بارے میں معلومات کا خزانہ جمع ہوگیا ہے۔ مجھے کسی نے ایک لطیفہ بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’میرے فون نے کورونا کو بہت زیادہ جذب کیا ہے نتیجہ میں اب وہ رنگس نہیں دیتا بلکہ کھانستا ہے‘‘ اس قدر معلومات کے باوجود بعض ایسے شعبہ ہیں جن کے سوالات کے بارے میں ہمارے پاس کوئی جوابات نہیں ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کیونکہ ماہرین ہمارے جوابات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن بعص مرتبہ یہ ہوتا ہے کیونکہ ہم اعداد و شمار کے عادی ہوگئے ہیں جو اس طرح اہمیت کے حامل نہیں ہوتے جیسا ہمیں بتایا جاتا ہے۔
ایسے میں آج کا میرا یہی موضوع میں قطعی جوابات دینے کا دکھاوا نہیں کرسکتا۔ میں ڈاکٹر ہوں نہ ہی ماہر وبائیات اس کے باوجود میں نے کئی ایک ماہرین کے ساتھ یہ مسائل اٹھائے ہیں اور ان کی رائے نے مجھ کو ایک احساس ضرور دیا ہے کہ ان بھولبھلیوں میں کیسے رہنمائی کی جائے۔ سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم جو ٹسٹس کررہے ہیں وہ کافی ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا حکومت، سیاستداں، اعلیٰ سرکاری عہدہ دار یا ڈاکٹر کوئی راست جواب نہیں دیں گے۔ دوسری طرف آزادانہ ماہرین غیر واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں جتنے ٹسٹس کرنے تھے وہ نہیں کئے گئے اکثر لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جو ٹسٹس کئے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
بہرحال فی الوقت ہندوستان میں ایک ملین افراد میں سے صرف 8191 افراد کے ٹسٹس یا معائنے کئے جارہے ہیں۔ اس کے برعکس اسپین میں ایک ملین لوگوں میں سے 122651، برطانیہ میں 1,69,945 اور اٹلی میں 96,836 ٹسٹس کئے جارہے ہیں حالانکہ ان ملکوں کی آبادیوں سے ہندوستان کی آبادی 10 یا 12 گنا زیادہ ہے۔ یہ کافی نہیں، ہوسکتا کہا ہے؟ اس سوال کا بہترین جواب سومیہ سوامی ناتھن نے دیا جو عالمی ادارہ صحت کے چیف سائنٹسٹ یا سائنسداں اعلیٰ ہے وہ کہتی ہیں کہ ہندوستان کو ٹسٹوں کی تعداد میں مثبت شرح تک اضافہ کرنا چاہئے مثبت شرح صرف قومی سطح پر بلکہ نازک ترین ہاٹ اسپاٹس پر دیکھی جانی چاہئے اور ٹسٹوں کی تعداد اس وقت تک بڑھانی چاہئے جب وہ 5 فیصد سے کم نہیں ہو جاتی باالفاظ دیگر ہمیں زیادہ سے زیادہ ٹسٹس کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ مثبت شرح کم سے کم ہوتی چلی جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آیا ہم کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلہ میں ہیں اور ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد 820916 ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ کورونا متاثرین کی تعداد میں یومیہ اوسطاً 27000 کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہیکہ ہم کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلہ میں نہیں ہیں جبکہ آزادانہ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلہ سے گذر رہے ہیں۔ تاہم انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ
(ICMR)
اس سے متفق نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کمیونٹی ٹرانسمیشن کے مرحلہ میں نہیں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہماری شرح اموات کی اہمیت کیا ہے؟ یہ شرح فی ملین 16 پر ہے اور یہ برطانیہ میں فی ملین 658 اٹلی میں فی ملین 578 اور اسپین میں فی ملین 607 سے کافی بہتر ہے، نتیجہ میں حکومت کا یہ دعویٰ کہ ہم دیگر کئی ملکوں سے بہتر مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس پر دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے شرح اموات کا جو حساب کیا ہے وہ کتنا درست ہے۔ آیا ہمارے پاس ملک میں کووڈ ۔ 19 سے متاثر ہوکر جملہ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی صحیح آئیڈیا ہے؟ یقینا، کیس کے بارے میں جو سرکاری اعداد و شمار ہیں وہ بہت ہی کم ہوسکتے ہیں کیونکہ اس میں ان ہزاروں لاکھوں کیسوں کو شامل نہیں کیا گیا جن کے بارے میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔ اگر دنیا کے مختلف ملکوں میں پہلا مسئلہ عام یا مشترکہ نہیں ہے لیکن دوسرا مسئلہ بلا شک و شبہ ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے ان حالات میں کسی بھی ملک کی شرح اموات حقیقت کی صحیح عکاسی کرتی ہے صرف ہمارے ملک میں شرح اموات کم ہے۔
اگر آپ دوسرے ملکوں کی شرح سے اپنے ملک کی شرح کا تقابل کرتے ہیں تو مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں تک شرح اموات کا سوال اس کے معاملہ میں مختلف عمر اور آبادیوں کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور ہندوستان تو ایک نوجوان آبادی کا حامل ملک ہے ہماری 90 فیصد آبادی 60 سال سے کم عمر کی ہے جبکہ اٹلی نوجوان آبادی والا ملک نہیں ہے صرف 70 فیصد آبادی کی عمر 60 سال سے کم ہے۔
اب آخر میں شرح روبصحت کا جائزہ لیتے ہیں یہ بھی ایک اعداد و شمار کا معاملہ ہے۔ ان اعداد و شمار کو حکومت یہ دعویٰ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیکہ صورتحال ہمارے قابو میں ہے۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ کیا ہمارے پاس اموات اور جملہ کیسیس کا صحیح آئیڈیا ہوگا۔ ہر کسی کی شرح روبصحت ایک طرح کی ہی ہوگی اور 99 فیصد کے قریب ہوں گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے اشیش جھا اور ہمارے اپنے رامن گنگا کھیڈ کراس سے اتفاق کرتے ہیں اس لئے اگر ہر کسی کی شرح روبصحت ایک ہی ہوگی تو پھر ہم یہ سب اپنے لئے کیوں اور کس لئے کررہے ہیں۔
اب میں یہ شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ میں نے جو چار مسائل اٹھائے ہیں عوام میں اس کی گونج سنائی دے گی اور اگر حکومت ان مسائل پر خاموشی اختیار کرے تو میڈیا انہیں اٹھائے گا اور جب وہ ایسا کریں گے تو یاد رکھئے میں نے آپ سے کیا کہا اس سے بامعنی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔