کابل، 29 ستمبر (ایجنسیز) افغانستان کا دارالحکومت کابل ایشیا کے سب سے زیادہ پانی کی قلت والے شہروں میں شامل ہوگیا ہے، جہاں لاکھوں افراد روزانہ کی بنیاد پر پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ آٹھ سالہ جڑواں بھائی نوراللہ اور سناؤاللہ اسکول جانے کے بجائے دن بھر پیلے کین وہیل بیرو پر ڈال کرگلیوں میں پانی لانے پر مجبور ہیں۔ نوراللہ اور اس کا خاندان، جس میں 13 افراد شامل ہیں، چار سال قبل تک اپنے ذاتی کنویں سے پانی حاصل کرتا تھا، لیکن اب خشک سالی اور بارشوں کی کمی کے باعث وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب انہیں کمیونٹی کے نلکوں پر گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے یا پھر مہنگے ٹینکروں پر انحصارکرنا پڑتا ہے اور یہ کئی خاندانوں کی داستان ہے۔ ماہرین کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں نے کابل کو سنگین خطرات سے دوچارکردیا ہے۔ افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک نے خبردارکیا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو 2030 تک کابل کا زیر زمین پانی مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔ اہلِ محلہ کے مطابق بعض گھروں کے 120 میٹرگہرے کنویں بھی خشک ہو چکے ہیں۔ پانی کی قلت نے نہ صرف صحت کے مسائل کو بڑھایا ہے بلکہ تعلیمی عمل پر بھی برا اثر ڈالا ہے۔ نوراللہ، جو مرگی کے مرض میں مبتلا ہے، ایک مرتبہ پانی بھرتے ہوئے بیہوش ہوگیا تھا۔ اس کا بھائی کہتا ہے کہ اکثر تین تین گھنٹے قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے اورگرمی میں چکر آنے لگتے ہیں۔ نوراللہ کے والد اسداللہ، جو ایک چھوٹی دکان چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اکثر بچوں کے ساتھ پانی لانے جانا پڑتا ہے جس سے روزگار بھی متاثر ہوتا ہے۔ بچے روتے ہیں کہ مزید پانی نہیں لا سکتے، مگر ہم مجبور ہیں۔ادھر اقوامِ متحدہ کی نمائندہ روزا اوتونبائیوا نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ خشک سالی اور ماحولیاتی جھٹکے کابل کو چند برسوں میں دنیا کا پہلا دارالحکومت بنا سکتے ہیں جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔ عوام کی ایک ہی فریاد ہے: اگر پانی میسر ہو تو نہ صرف بچوں کا مستقبل بچ سکتا ہے بلکہ شہریوں کی زندگی بھی بدل سکتی ہے۔
