کابل۔ افغان خواتین کے ایک چھوٹے گروپ نے جمعہ کو کابل میں صدارتی محل کے قریب احتجاج کیا، انہوں نے طالبان سے ایک ایسے موقع پر مساوی حقوق کا مطالبہ کیا جب افغانستان کے نئے حکمران حکومت سازی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کابل میں یہ احتجاج کئی دنوں میں خواتین کا دوسرا احتجاج تھا، اس سے قبل ایک احتجاج مغربی شہر ہرات میں ہوا تھا۔ تقریباً 20 خواتین مائیکروفون کے ساتھ مسلح طالبان کے سامنے جمع ہوئیں، جنہوں نے مظاہرے کو ا?گے بڑھنے دیا۔خواتین نے تعلیم تک رسائی، کام پر واپس آنے کے حق اور ملک کی حکمرانی میں کردار کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جو کارڈ اٹھا رکھے تھے ان میں سے ایک پر لکھا تھاکہ آزادی ہمارا نصب العین ہے ہمیں اس پر فخر ہے۔ ایک موقع پر ایک جنگجو طالبان ہجوم میں گھس گیا، لیکن عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ ان لوگوں پر برہم تھا، جو مظاہرے کو دیکھنے کے لیے رک گئے تھے۔طالبان نے کہا ہے کہ خواتین اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی اور گھر سے باہر کام کر سکیں گی، جب عسکریت پسند آخری بار اقتدار میں تھے تو خواتین کو حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ لیکن طالبان نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ شریعت، یا اسلامی قانون نافذ کریں گے، لیکن تفصیلات نہیں دیں۔ طالبان کے لیے ممکنہ طور پر بحران میں گھری ہوئی معیشت زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جو بحران میں مبتلا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کئی مہینوں سے ادائیگی نہیں کی گئی، اے ٹی ایم مشینوں کو بند کر دیا گیا ہے اور بینک ہفتہ میں 200 ڈالر تک رقم نکالنے کی پابندی لگا رہے ہیں۔
