کپل سبل
ریزرو بینک آف انڈیا ہندوستان کے بینکنگ نظام کی شہ رگ ہے لیکن کئی بار اس نے غلطیاں کی ہیں اور اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے اشارہ پر کام کررہی ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ بعض افراد کو شبہ ہے کہ حالیہ سفارشات کے طریقہ سے صنعت کاروں کو بینکوں پر کنٹرول حاصل ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور یہ سفارشات حکومت کے اشارہ پر کی گئی ہیں۔ سرکاری زیر انتظام بینکوں میں قرض فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تاکہ صنعتی شعبہ کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔ ان کے قرض کی فراہمی طلب کی تکمیل نہیں کرسکتی۔ سرکاری بینکیں جن پر عدم کارکرد اثاثہ جات کا زبردست بوجھ ہے، قرض دینے کی محدود صلاحیت رکھتی ہیں نتیجہ یہ کہ زیادہ تر بینکوں اور مالی اداروں کی ضرورت ہے تاکہ صنعت کاروں کی مدد کرسکیں۔
2016 میں نوٹ بندی کے بعد معیشت تیز رفتاری سے انحطاط پذیر ہوگئی جس کی وجہ سے سخت تشویش پیدا ہوگئی، اس کے بعد کووڈ ۔ 19 کی وباء نے معیشت کو لڑکھڑانے پر مجبور کردیا۔ معیشت کے تقریباً ہر شعبہ میں سوائے ان شعبوں کے جو ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تاکہ اشیا اور خدمات فراہم کرسکیں۔ تقریباً ہر شعبہ تیز رفتاری سے انحطاط کا شکار ہوگیا۔ کئی شعبوں کو قرض کی ضرورت ہے۔ سرکاری زیر انتظام بینکس قرض دینے سے گریز کرتی ہیں اور اس کی واضح وجوہات ہیں۔
آر بی آئی کے معیاروں کے علاوہ کامت کمیشن کے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق قرض دینے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا ضروری ہے لیکن اس کے نتیجہ میں کاروباری صنعت کار قرض کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔ ان پیمانوں کے بموجب اسٹیٹ بینک آف انڈیا سرکاری زیر انتظام بینکوں میں سرفہرست قرض دہندہ ہے۔ اگر اس کی تنظیم جدید کی جائے تو پہلے ہی سے پریشان حال قرض داروں پر مزید پانچ فیصد بوجھ پڑے گا۔ سرکاری زیر انتظام بینکیں اسی وجہ سے قرض دینے کا خطرہ مول لینے کے خلاف ہیں۔
بینک کے عہدہ دار نرم نشانہ ہیں۔ اس کے بارے میں بعض افراد کو تشویش ہے کہ وہ سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کا نشانہ بن جائیں گے۔ کوئی بھی بینک اس وقت تک قرض نہیں دیتا جب تک کہ سابقہ قرض اس کے ساتھ ساتھ جاری رہے، کیونکہ یہ بینک کیلئے ایک مشکل کام ہے۔ معیشت کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے پاس اثاثہ جات ہوں۔ وباء کے دوران اثاثہ جات کی کمی کی وجہ سے وہ قرض حاصل کرنے کیلئے ضمانت دینے سے قاصر ہیں۔
سب سے زیادہ متاثر شعبہ سڑکوں کی تعمیر، جائیداد، مکانوں کی تعمیر اور میزبانی، پیداوار اور سیاحت، وغیرہ ہیں۔ یہ تمام شعبے ملازمتوں کے اعظم ترین مواقع فراہم کرتے ہیں اور محروم طبقات ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہ شعبہ جات قرض کی سہولت سے محروم ہیں اور ان کو بھی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
چند بڑے تاجر گھرانے قومی اثاثہ جات کے بڑے حصہ پر قبضہ رکھتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشی قداور گھرانوں کی ان شعبوں میں کثرت ہوگئی ہے، معیشت کے اہم شعبوں میں ان کی بھرمار ہے اور وہ اپنے قدم جمانا چاہتے ہیں کیونکہ حکومت سرکاری زیر انتظام بینکوں کی سرپرست ہے۔ وہ انہیں انتہائی ضروری سرمایہ کاری فراہم کرسکتی ہے اور انہیں قرض دے سکتی ہے تاکہ وہ اہم اثاثہ جات اپنی آئندہ ضرورتوں کے لئے حاصل کرسکیں۔
اگر صنعتی گھرانے بینک قائم کرنے کے اجازت یافتہ ہو جائیں تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قرض کی بیشتر رقم ان افراد کو حاصل ہو جائے جو مراعات یافتہ اور دیگر رعایتوں کے حقدار صنعتوں کو قرض فراہم کریں۔ آر بی آئی قرض دینے کے عمل کی نگران کار ہے۔ اس کے علاوہ ہر سودے کی بھی نگران کار ہے۔ ان ممالک کے تجربات جہاں صنعتی گھرانوں کو بینک قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے تشویشناک ہیں کیونکہ یہ بینک ناکام ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں کوئی تجارتی گھرانہ نہیں ہے جسے بینک قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہو ورنہ وہ بھی شرح سود کے مقررہ معیاروں کی خلاف ورزی کرتا اور کرسکتا بھی ہے۔ کسی بھی قیمت پر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
عوامی نظریہ سے یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ صنعتی گھرانوں کے برسراقتدار انتظامیہ سے گہرے تعلقات ہیں۔ انتخابی بندھن مسلسل ایسے صنعتکار گھرانوں کو برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اس سے اس شک میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ ایسی صورت میں اگر صنعتی گھرانوںکو بینک قائم کرنے اور قرض دینے کی اجازت دی جائے تو اس سے صرف کاروباری افراد اور کاروباری انجمنوں کو فائدہ پہنچے گا اور یہ افراد، ادارے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے قربت رکھتے ہوں گے۔ ایسی صورتحال اگر بڑے پیمانے پر فرق و امتیاز کا طریقہ قرض دینے کے لئے استعمال کرے تو اس کے نتیجہ میں تجارتی گھرانوں اور افراد کے خلاف شکایتیں پیدا ہو جائیں گی جن صنعت کاروں اور صنعتوں کے خلاف شکایتیں نہیں ہوں گی انہیں قرض حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔
ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ بینکنگ نظام میں اسکامس اور اسکینڈلس کیسے ابھرتے ہیں۔ ایس بینک، آئی سی آئی سی آئی بینک، انفرا اسٹرکچر لیزنگ اینڈ فینانشیل سرویسس لمیٹیڈ، دیوان ہاوزنگ فینانشیل کارپوریشن لمیٹیڈ اور دیگر کئی صنعتی گھرانوں کے زیر انتظام بینکوں میں بدعنوانیوں کے واقعات پیش آچکے ہیں جس میں افراد اور ادارے ملوث تھے اور تحقیقات ہنوز جاری ہیں۔ بینکنگ نظام ایسے اسکامس اور ان کی نگران کاری کے سلسلہ میں بدنام ہوچکا ہے۔
آر بی آئی کی اس نظام کی نگرانی واضح طور پر اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ غیر بینکنگ مالی کمپنیاں بھی خواہش رکھنے کے باوجود کئی سہولتوں سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اس لئے آر بی آئی پر فرض ہے کہ ان نظاموں پر بھی تجارت کے لئے قرض دینے پر غور کرے اور بینکنگ نظاموں پر گہری نظر رکھے کیونکہ فساد کی جڑ راست یا بالواسطہ اثر و رسوخ کا استعمال ہے جو بینکنگ شعبہ میں کیا جاتا ہے۔ اسے اپنے نظام کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔
جب تک بینکنگ نظام مقررہ پیمانوں پر سختی سے عمل کرے گا، بینکنگ نظام میں دیوالیہ ہو جانے اور صنعت کے لئے ضروری قرض دینے کی صلاحیت کم ہی رہے گی۔ آر بی آئی نے سفارشات پیش کی ہیں جو اس رائے کے برخلاف ہیں جو ماہرین کی کمیٹی نے پیش کی ہیں، یہ سفارشات پریشان کن ہیں۔ آر بی آئی کو اپنے قرض دینے کے فیصلے کی تائید میں اتفاق رائے حاصل کرنا ہوگا اور مستحق قرض داروں کو قرض فراہم کرنا ہوگا ورنہ اس کے وقار اور آزادی پر ضرب لگے گی۔ اس سے وہ آزاد برقرار نہیں رہے گی بلکہ صرف بینک کے نظام کو باقاعدہ بنانے تک اس کا فرض محدود ہو جائے گا۔