رام نگر، 26 جولائی (آئی اے این ایس) جیسے ہی ملک ہر سال 26 جولائی کو کارگل وجے دیوس مناتا ہے، ویسے ہی ملک کے سپاہیوں کی قربانی اور بہادری کو سلام پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے 1999 میں برف سے ڈھکے کارگل کی بلندیوں پر دشمن کو پسپا کیا۔ ان گمنام کہانیوں میں سے ایک سنہری باب ہے ، صوبیدار میجر نواب وسیم الرحمٰن کی، جو اترکھنڈ کے رام نگر سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہوں نے سات گولیاں لگنے کے باوجود 20 منٹ تک مسلسل دشمن سے لڑائی جاری رکھی۔کارگل کی جنگ جب شروع ہوئی، تو پورے ملک سے بہادر سپاہی موت سے آنکھیں ملانے کے لیے برفانی محاذ پر پہنچ گئے۔ اترکھنڈ کے75 سے زائد سپاہی شہید ہوئے، اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ ان میں نواب وسیم بھی شامل تھے، جنہیں چھ گولیاں دائیں پیر اور ایک بائیں پیر میں لگیں، لیکن وہ تب تک لڑتے رہے جب تک ان کے جسم نے ساتھ نہ چھوڑا۔نواب وسیم نے یاد کرتے ہوئے بتایا وہ صبح عام نہیں تھی۔ ہم ٹائیگر ہل کے قریب بڑھ رہے تھے جب دشمن نے اچانک فائرنگ شروع کردی۔ میرے ساتھی کیپٹن سمت رائے ابتدائی حملے میں شہید ہو ئے۔ ہم جانتے تھے پیچھے ہٹنے کا مطلب ملک کی عزت کھونا ہے۔لانس ڈاؤن (پوری گڑھوال) سے تعلق رکھنے والے وسیم نے1990 میں گڑھوال رائفلز میں شمولیت اختیارکی۔ دو سال کپواڑہ میں خدمات انجام دینے کے بعد انہیں جوشی ماتھ جانا تھا، لیکن کارگل جنگ کی وجہ سے وہ براہ راست محاذ جنگ پر پہنچ گئے ۔4,700 میٹر کی بلندی پر!انہوں نے کہا دشمن اونچی جگہ پر تھا، گولیاں اور مارٹرگولے بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ہم رات بھر چڑھتے رہے۔ ایک لمحے میں چھ گولیاں میرے دائیں پیر میں اور ایک بائیں پیر میں پیوست ہو گئیں۔ مگر درد محسوس نہیں ہوا، صرف دشمن کو شکست دینے کا جنون تھا۔ میں گولیاں چلاتا رہا، جب تک زمین پر گرکر احساس نہ ہوا کہ میں زخمی ہو چکا ہوں۔بعد میں انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا گیا اور میجر جنرل چوپڑا نے ان کا آپریشن کیا، جس سے ان کے پیر بچ گئے۔ ایک طویل علاج اور بحالی کے بعد، نواب وسیم دوبارہ کھڑے ہوئے ایک سپاہی کی طرح بھی اور انسانیت کے علمبردار کی طرح بھی۔ تقریباً 20 سال تک فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد، وہ 2019 میں صوبیدار میجرکے عہدے سے سبکدوش ہوئے لیکن ان کی خدمات ختم نہیں ہوئیں۔ آج وہ جنگ کے میدان کی بجائے فٹبال کے میدان میں ملک کی خدمت کررہے ہیں۔رام نگر میں سکونت اختیار کرنے کے بعد، نواب وسیم نے مقامی نوجوانوں کو منشیات اور بے راہ روی سے بچانے کا عزم کیا۔ اب وہ 150 سے زائد بچوں کو مفت فٹبال کی تربیت دے رہے ہیں۔ ان کا میدان صرف کھیل کا مرکز نہیں بلکہ اقدار، نظم و ضبط، حب الوطنی اور خود اعتمادی کی درسگاہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا: بچوں کو منشیات میں مبتلا دیکھنا دل توڑ دینے والا ہے۔ ہم نے اس ملک کے لیے گولیاں کھائیں، اب میں اس کے مستقبل کو بچانے کے لیے لڑتا ہوں۔ان کی تربیت سے کئی نوجوان قومی سطح پر کھیل چکے ہیں، جو ان کے عزم اور رہنمائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا فٹبال گراؤنڈ آج رام نگر میں امید کی ایک کرن ہے، جہاں نوجوانوں کی سوچ سنورتی ہے اور انہیں قوم سے محبت سکھائی جاتی ہے۔