کورونا علاج کیلئے غریب پریشان، لاکھوں روپئے درکار،مسلم انتظامیہ کا ایک بھی کارپوریٹ ہاسپٹل نہیں
حیدرآباد: کاش ! مسلم دولت مند افراد شادی خانوں کے بجائے دواخانوں کے قیام پر توجہ دیتے تو آج مسلمانوں کے ہزاروں خاندان کورونا وائرس کے علاج کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جاتے۔ کورونا جیسے مہلک مرض کے علاج کیلئے ایک طرف سرکاری دواخانوں میں بہتر طبی سہولتوں کا فقدان ہے اور گورنمنٹ ہاسپٹل جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تصور کیا جارہا ہے تو دوسری طرف خانگی اور کارپوریٹ ہاسپٹلس علاج کیلئے لاکھوں روپئے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جس کے پاس کم سے کم 5 لاکھ روپئے موجود ہوں اس کے لئے کسی کارپوریٹ ہاسپٹل میں بیڈ مل سکتا ہے۔ اس طرح غریب و متوسط خاندان خانگی اور کارپوریٹ ہاسپٹلس میں علاج کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے لہذا وہ ان ہاسپٹلس کا رُخ کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ موثر علاج سے محرومی کے سبب غریب اور متوسط خاندانوں میں اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام بھاری خرچ کے موقف میں نہ ہونے کے سبب اپنے رشتہ داروں کا گھر پر ہی علاج کرارہے ہیں اور اکثر و بیشتر گھریلو علاج میں ماہر ڈاکٹرس کی نگرانی نہ ہونے کی صورت میں زندگیاں ضائع ہورہی ہیں۔ ایسے میں حیدرآباد میں مسلم انتظامیہ کے تحت کارپوریٹ ہاسپٹلس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔ مسلم دولت مند افراد نے زائد کمائی کیلئے مختلف کاروبار یا پھر شادی خانوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں اگر بڑے اور اوسط شادی خانوں کا سروے کیا جائے تو اُن کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوگی اُن میں 50 فیصد سے زائد شادی خانے مسلم انتظامیہ کے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ مسلم انتظامیہ کے فنکشن ہال کروڑہا روپئے سے عالیشان محلات کی طرح تعمیر کئے گئے۔ ان فنکشن ہالس کا کرایہ بھی معقول ہے۔ شہر کے بعض شادی خانے ایسے ہیں جن کا ابتدائی کرایہ 5 لاکھ روپئے سے کم نہیں اور زیادہ سے زیادہ کرایہ 15 لاکھ تک ہے۔ ظاہر ہے کہ ان فنکشن ہالس کی تعمیر پر کروڑہا روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اب جبکہ مارچ سے کورونا لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا اور لاک ڈاؤن کی برخاستگی کے بعد کورونا وائرس کا قہر جاری ہے۔ ایسے میں شہر کے تمام عالیشان فنکشن ہالس ویران ہوچکے ہیں۔ فنکشن ہالس کے مالکین کیلئے شادیوں کا سیزن بھی کسی فائدے کے بغیر گذر گیا۔ اب جبکہ کورونا وائرس کے خاتمہ کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا لہذا آئندہ دو تین ماہ تک شادی خانوں میں تقاریب کا اہتمام ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے بھی شادیوں کیلئے صرف 50 افراد کی شرکت کی گنجائش رکھی ہے ایسے میں لوگ مجبوری کی حالت میں یا تو مساجد یا پھر چھوٹے فنکشن ہالس میں دن کے اوقات میں شادیوں کا اہتمام کررہے ہیں۔ان حالات میں عام مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ اگر دولت مند افراد نے آمدنی میں اضافہ کیلئے شادی خانوں کے بجائے کارپوریٹ طرز کے دواخانے قائم کرتے تو آج غریب اور متوسط طبقات کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ شہر کے جو بھی بڑے کارپوریٹ ہاسپٹلس کروڑہا روپئے کی آمدنی حاصل کررہے ہیں اُن کے انتظامیہ کا میڈیکل شعبہ سے تعلق نہیں۔ دولت مند افراد سرمایہ کاری کرتے ہیں اور نامور ڈاکٹرس کو آگے رکھ کر ہاسپٹلس قائم کئے گئے۔ اسی طرح مسلم دولت مند افراد بھی نامور ڈاکٹرس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے بہتر طبی سہولتوں کے ساتھ ہاسپٹلس قائم کرسکتے تھے اور اس سے منافع بھی حاصل ہوسکتا تھا لیکن کسی نے اس شعبہ کی جانب توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ آج غریب و متوسط مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کورونا ہو یا پھر کوئی اور مرض خانگی اور کارپوریٹ ہاسپٹلس میں علاج کیلئے لاکھوں روپئے درکار ہیں۔ رقم سے محروم خاندان اپنے قریبی افراد کے علاج کے بجائے انہیں گھر پر رکھنے پر مجبور ہیں اور وہ بتدریج موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے زیر انتظام کارپوریٹ ہاسپٹلس خدمت کے جذبہ کے ساتھ قائم کئے جاتے تو آج کورونا سے مسلمانوں میں اس قدر اموات نہیں ہوتیں۔