تلنگانہ وقف بورڈ کی تحلیل کا مطالبہ، محمد علی شبیر کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔ سابق اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر نے تلنگانہ کے پراجکٹس میں بے قاعدگیوں سے متعلق فینانس کمیشن کی رپورٹ پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ کالیشورم پراجکٹ میں کی گئی بے قاعدگیاں منظر عام پر آسکیں۔ محمد علی شبیر نے تلنگانہ وقف بورڈ پر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت سے بورڈ کی فی الفور تحلیل کا مطالبہ کیا۔ میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ وقف بورڈ تلنگانہ میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے بجائے قبرستانوں کی اراضی کو لیز پر دینے کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ بورڈ کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر شاہنواز قاسم اور بورڈ کے ارکان کے درمیان لیز کے مسئلہ پر ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وقف بورڈ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبرستانوں کی اراضیات کو لیز پر دینے کا معاملہ منظر عام پر آیا لیکن کئی ایسے معاملات ہیں جو فائیلوں میں دب چکے ہیں۔ چیف ایگزیکیٹو آفیسر شاہنواز قاسم سے حکومت کو تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے بورڈ کو فی الفور تحلیل کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بورڈ کی جانب سے کئے گئے کئی متنازعہ فیصلے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں کروڑ مالیت کی اوقافی جائیدادیں قابضین کے قبضہ میں ہیں اور سیاسی سرپرستی کے نتیجہ میں حکومت ان کے خلاف کارروائی میں ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں سنجیدہ ہو تو اسے چاہیئے کہ بورڈ کو فوری تحلیل کرتے ہوئے اسپیشل آفیسر کا تقرر کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقلیتی بہبود کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن جاریہ مالیاتی سال 40فیصد بجٹ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ 1500 کروڑ کے منجملہ 500 کروڑ بھی اقلیتی اسکیمات پر خرچ نہیں ہوئے۔ ایس سی، ایس ٹی طبقات کیلئے مرکزی فنڈز ہیں جبکہ بی سی اور اقلیت کے معاملہ میں ریاستی حکومت کا رویہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1993 میں وزیر اقلیتی بہبود کی حیثیت سے قبرستان افضل گنج کی حصار بندی کا کام کرایا گیا تھا لیکن آج وقف بورڈ قبرستان کی اراضی کو لیز پر دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ 15 ویں فینانس کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ رپورٹ میں کالیشورم پراجکٹ میں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کانگریس گذشتہ پانچ برسوں سے پراجکٹ کے بارے میں جو انکشافات کررہی تھی وہ فینانس کمیشن کی رپورٹ سے درست ثابت ہوا۔ فینانس کمیشن نے بتایا کہ کالیشورم پراجکٹ کے قرض کو اضافی آمدنی ظاہر کیا گیا ہے۔ حکومت کو ایسی رپورٹ پیش کرنے والے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام ٹھپ ہوچکا ہے اور حکومت نے کئی برسوں سے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرس کے تقررات نہیں کئے۔ اس معاملہ میں گورنر سوندرا راجن کو مداخلت کرنی پڑی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ تمام اہم پراجکٹس کانگریس دور حکومت میں تعمیر کئے گئے۔ انہوں نے ریاست میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں حکومت پر ناکامی کا الزام عائد کیا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ ہر عروج کو زوال یقینی ہے۔ کے سی آر نے چیف منسٹر کے عہدہ کو بائیں پیر کی چپل سے تعبیر کرتے ہوئے عہدہ کی توہین کی ہے۔ تلنگانہ کے عوام کے سی آر کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے تیار ہیں۔