پی چدمبرم
سال 2020 اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور سال 2020 میں ساری دنیا پریشان ہوکر رہ گئی۔ ہر ملک کی معیشت پر کار ضرب پڑی اور بعض ممالک کی معیشت تو پٹ کر رہ گئی۔ اگرچہ یہ سال رخصت ہو رہا ہے لیکن کووڈ ۔ 19 اب تک رخصت نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے کوئی امکانات نظر آرہے ہیں۔ تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ معیشت کا تباہ ہونا یا معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونا کووڈ ۔ 19 سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے کہ کووڈ ۔ 19 کے خاتمہ کے لئے جو ٹیکے ہم میں تقسیم کئے جارہے ہیں وہ ہمارے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ جہاں تک ہمارے وطن عزیز ہندوستان کا تعلق ہے ہماری معیشت تباہ ہو گئی ہے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں شدید طور پر متاثر ہوئیں۔ خاص طور پر نقل مکانی کرنے والے مزدور اور دوسرے لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے جو اپنے باقاعدہ روزگار اور ملازمتوں سے محروم ہوئے۔ مزید برآں یہ کہ مختلف سیاسی قائدین بشمول مسٹر امیت شاہ اور مسٹر آدتیہ ناتھ کے اشتعال انگیز، تخریبی بیانات اور عوام کو مذہبی خطوط پر باٹنے والے بیانات نے ہمارے سماجی دھاگے کو نقصان پہنچایا ۔ اگر دیکھا جائے تو 2020 نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اگر کسی قوم میں کام، دولت اور بہبود جیسے تین اہم اقدامات یا عناصر میں گراوٹ آجائے تو پھر اُس قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں آپ سے یہی کہوں گا کہ 2020 نے ہمیں جو سبق دیا ہے اس سال کے آخری کالم میں اُس پر روشنی ڈالوں۔
کام
جہاں تک کام کا سوال ہے یہ کام ہی جو انسانوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے اور کسی کو ممتاز بناتا ہے۔ ایسے کئی لاکھوں لوگ ہیں جنہیں کام نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے باوجود وہ کام کرتے ہیں، کیونکہ کام سے خوشی ملتی ہے اور معاشرہ میں عزت حاصل ہوتی ہے۔ انعامات و اعزازات ملتے ہیں اور معاشرہ میں کام ہی کسی انسان کو غیر معمولی موقف عطا کرتا ہے اور اس کے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور دوسری طرف ایسے کروڑہا لوگ ہیں جنہیں کام کی ضرورت ہے لیکن انہیں کام نہیں مل سکتا۔ وہ لوگ بے روزگار ہیں اگر ہمارے ملک میں بے روزگاری کا جائزہ لیں تو اس سلسلہ میں جو تازہ ترین رپورٹ آئی ہے اس کے مطابق ہندوستان میں بیروزگاری کی شرح 8.7 فیصد ہے (CMI 22 دسمبر 2020) جن کے پاس کام ہے اور جن کے پاس کام نہیں ان دونوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو ورک فورس میں شامل ہونے کی خواہش نہیں رکھتے اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم ہوم ورکرس کہہ سکتے ہیں اور ان کا افرادی قوت کے ایک حصہ کے طور پر شمار نہیں کیا گیا۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے بیروزگاری ہمیشہ ہی ایک بہت بڑا چیالنج رہا۔ نمو کی شرحوں میں تیزی سے گراوٹ (2018-19 اور 2019-20) نے بیروزگاری میں غیر معمولی اضافہ کیا اور کووڈ ۔ 19 کی عالمی وباء نے اس صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا، جبکہ بنا کسی منصوبہ کے جو لاک ڈاونس کئے گئے ان سے بھی صورتحال مزید ابتر ہوئی۔ ایک ایسے وقت جبکہ کورونا وائرس کی وباء اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے 130 ملین لوگ اپنے روزگار سے اور روزی روٹی سے محروم ہوگئے۔ ہاں اب صورتحال آہستہ آہستہ معمول پر آتی نظر آرہی ہے اور اسی طرح جو نوکریاں گئی تھیں یا مخلوعہ ہوگئی تھیں ان پر اب لوگ آہستہ آہستہ واپس آرہے ہیں۔ لیکن یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ بعض نوکریاں یا ملازمتیں مستقل طور پر نظروں سے اوجھل ہوگئی ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ حسب ذیل اعداد و شمار کے ذریعہ صورتحال کا بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2004-05 کے اختتام پر جو اعداد و شمار جمع کئے گئے تھے اس کے مطابق افرادی قوت یا ورک فورس 438 ملین تھی جبکہ بیروزگاری کی شرح 2.3 ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح جی ڈی پی 32,42,209 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی اور اس سال ہم نے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ 180 میں سے 120 نمبرات ہمارے ملک کو حاصل ہوئے۔ اسی طرح سال 2013-14 میں افرادی قوت 472 ملین تھی اور جی ڈی پی 105,27,673 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی۔ فروغ انسانی وسائل کے اشاریہ میں 189 ممالک میں ہمارا مقام 130 واں تھا، جبکہ ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں ہم نے 180 ممالک میں سے 140 واں مقام حاصل کیا۔ سال 2017-18 میں افرادی قوت 484 ملین درج کی گئی۔ بیروزگاری کی شرح 4.7 پائی گئی، جبکہ 131,75,160 کروڑ روپے قومی مجموعی پیداوار تھی۔ 189 ممالک میں ہمارا ایچ ڈی آئی رینک 131 تھا۔ ہیومن فریڈم انڈکس کے معاملہ میں 162 ممالک میں ہندوستان کا رینک 102 دیکھا گیا۔ اسی طرح ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں 180 ملکوں میں ہمارا ملک 136 ویں مقام پر تھا۔ اب چلتے ہیں سال 2018-19 کی طرف اس سال افرادی قوت 487 ملین تھی، بیروزگاری کی شرح 6.3 ریکارڈ کی گئی، جبکہ جی ڈی پی 139,81,425 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی۔ ایچ ڈی آئی رینک 130، ہیومن فریڈم انڈکس 110 اور ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 138 ریکارڈ کیا گیا۔ سال 2019-20 میں ورک فورس کی تعداد 494 ملین، بیروزگاری کی شرح 8.5 اور جی ڈی پی 145,65,951 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح ایچ ڈی آئی رینک 129، ہیومن فریڈم انڈکس 140 اور ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 140 رہا۔ سال 2020-21 کے پہلے سہ ماہی میں بیروزگاری کی شرح 18.9 فیصد رہی جبکہ جی ڈی پی 26,89,556 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی۔ سال 2020-21 کے دوسرے سہ ماہی میں افرادی قوت 500 ملین ریکارڈ کی گئی جبکہ بیروزگاری کی شرح 7.3 فیصد رہی۔ اسی طرح جی ڈی پی 33,14,166 کروڑ روپے ریکارڈ کی گئی۔ ہمارے ملک کا ایچ ڈی آئی رینک 189 ممالک میں 131، ہیومن فریڈم انڈکس 162 ممالک میں 142، ورلڈ پریس فریڈم انڈکس 180 ممالک میں 142 رہا۔
دولت
کسی قوم کی دولت کا اندازہ لگانے یا اسے بہ آسانی سمجھنے کے لئے جو آلہ ہے وہ اس ملک کا جی ڈی پی یا قومی مجموعی پیداوار ہے۔ اگر کسی ملک کی قومی مجموعہ پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی دولت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور فی کس آمدنی میں ایک شہری کا اوسطاً حصہ بھی بڑھ رہا ہے۔ میں نے بہت ہی آسان مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ مذکورہ اعداد و شمار میں میں نے آپ کو یہ بتایا کہ 2017-18 کے بعد جی ڈی پی میں بھی اضافہ دیکھا گیا اور پھر 2020-21 میں آپ ہمارے ملک میں دولت کی تباہی کو دیکھ سکتے ہیں۔ 2020-21 کے جو اعداد و شمار میں نے آپ کو بتائے ہیں وہ کسی ترقی پذیر ملک کے لئے حوصلہ افزاء نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں غریب پائے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ ہمارے ملک میں مستقبل کو لے کر مایوسی پائی جاتی ہے۔
بہبود
بیروزگاری اور سست نمو (یا منفی پن) کا ایک مرکب یقینا بہبود یا ترقی پر اپنے اثرات مرتب کرے گا لیکن میری تشویش صرف اقتصادی یا معاشی بہبود نہیں ہے بلکہ تغذیہ، نگہداشت صحت اور سماجی صیانت یا سیکوریٹی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہبود مادیت اور ٹھوس اشیاء و خدمات سے بالاتر ہے۔ آپ اپنے آپ سے چند سوالات کیجئے کہ آیا لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد لوگ ہیں؟ آیا ان میں خوف کا بہت زیادہ احساس پایا جاتا ہے؟ آیا لوگوں میں اس بات کا خوف ہے کہ سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، این سی بی اور این آئی اے انہیں اپنا شکار بناکر ان کے خلاف کارروائی کریں گی؟ کیا لوگوں کو اس بات پر بھروسہ ہے کہ عدالتیں قابل رسائی ہیں اور وہ انصاف دیں گی؟ کیا دو نوجوان لوگ دوست ہوسکتے ہیں؟ ایک ساتھ باہر جاسکتے ہیں؟ محبت میں گرفتار ہو کر شادی کرسکتے ہیں؟ کیا کوئی لڑکی اپنی مرضی و منشا کے اور پسند کے مطابق کھا سکتی؟ لباس زیب تن کرسکتی ہے؟ بول سکتی؟ لکھ سکتی ہے؟ اور دوسروں لوگوں سے جڑی رہ سکتی ہے؟ بہبود انہی چیزوں میں شامل ہے۔ اگر ہم ہندوستان میں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس، انڈکس آف فریڈم، پریس فریڈم وغیرہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے اس میں دوسرے شعبوں کی طرح اچھا اور برا ہوتا ہے اور اس کی وجوہات خارجی و داخلی عناصر و تبدیلیاں بنتی ہیں لیکن ان تمام کی ذمہ داری حکومت کو اٹھانی چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ارادے اچھے ہوں لیکن اسے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ کئی ملکوں میں صدور اور وزرائے اعظم کے لئے میعاد محدود ہے۔ احساس کارکردگی زوال کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال ہم نے 2020 میں جو حالات دیکھے ہیں اس میں 3 تصاویر ہمارے ذہنوں پر چھا گئے ہیں۔ کروڑہا کی تعداد میں تھکے ماندے، بھوکے اور بیمار، مائیگرینٹ مزدور جو اپنے گھروں کو پہنچنے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر پیدل سفر کررہے تھے، کوئی قومی شاہراہ سے تو کوئی ریلوے پٹریوں پر چلتے ہوئے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ دوسری تصویر طویل مدتی پرامن احتجاجی مظاہرے پہلے شاہین باغ میں اور اب دہلی کی سرحد پر۔ یہ سب کچھ اس مطالبہ کو لے کر کئے جارہے تھے کہ حکومت ان کی آواز سنیں اور انصاف کے لئے ان کی درخواستوں پر توجہ دیں۔ تیسری تصویر کشمیر میں مقامی اداروں کے انتخابات جس میں وادی کشمیر میں 5 اگست 2019 کو حکومت کی جانب سے برپا کی گئی غیر دستوری بغاوت کو مسترد کردیا گیا۔ بہرحال میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ 2020 کی یادیں دوبارہ دہرائی نہ جائیں بلکہ بے خوف اور آزادی پسند ہندوستانی ہونے کے ناطے فخر کریں اسی کے ساتھ میں آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتا ہوں۔