کامیابی اتفاق نہیں ہوتی

   

محمد مصطفی علی سروری
اس برس NEET امتحان کے نتائج کا 5؍ جون کو اعلان کیا گیا۔ جس میں راجستھان سے تعلق رکھنے والے نلین کھنڈیل وال نے 99.99 فیصد مارکس کے ساتھ پہلا آل انڈیا رینک AIR حاصل کیا۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی 6؍ جون 2019ء کی رپورٹ کے مطابق کھنڈیل وال ہر روز سات تا آٹھ گھنٹے پڑھائی کرتا تھا اور جب کوئی سوال سمجھ میں نہیں آتا اور سوال چاہے کیسا ہی کیوں نہ لگے اپنے ٹیچرس سے ضرور پوچھتا۔ حالانکہ اس کے سوالات کو ساتھی طلبہ بے موقع اور غیر منطقی سمجھا کرتے تھے۔ کھنڈیل وال نے بتلایا کہ پچھلے دو برسوں میں اس نے بس اپنا ایک ہی مقصد بنارکھا تھا کہ اس کو اچھے طریقے سے پڑھائی کرنی ہے۔ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنا ایک طالب علم کو کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ سبھی لگاسکتے ہیں۔ کھنڈیل وال نے بتلایا کہ اس کے پاس کوئی اسمارٹ فون نہیں تھا اور وہ سوشیل میڈیا سے بھی دور رہنے لگا تھا۔
کیا کھنڈیل وال کسی غریب اور معاشی طور پر پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھتا تھا کہ اس کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھا جی نہیں قارئین کھنڈیل وال ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جس کے ماں اور باپ دونوں بھی ڈاکٹر ہیں اور سکھر راجستھان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کھنڈیل وال کا بڑا بھائی بھی ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کھنڈیل وال نے 95.8 فیصد مارکس حاصل کیے تھے۔ اس نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ ایک ہی مضمون کو ایک سے زائد بار پڑھنے کی عادت، صحت مند مقابلہ آرائی اور والدین کی ہمت افزائی کے سبب اس کے لیے کامیابی کا سفر آسان رہا۔ کھنڈیل وال نے مزید بتلایا کہ NEET کے بعد اب اس کو (AIIMS) آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس کے داخلہ امتحان کے نتیجے کا انتظار ہے۔

موبائل فون سے اجتناب اب حصولِ تعلیم اور کامیابی کے سفر کی پہلی سیڑھی بنتا جارہا ہے۔ قارئین جن کے دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ ڈاکٹر والدین ہوں تو ان کے بچوں کے لیے بھی میڈیسن میں کامیابی حاصل کرنا آسان رہتا ہے تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ والدین کامیاب ہوں تو بچوں کی کامیابی یقینی نہیں ہوسکتی اور محنت کر کے تو ایسے بچے بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جن کے والدین کے ہاں وہ کچھ بھی نہیں جو کھنڈیل وال کے والدین کے پاس تھا۔

اخبار ہندوستان ٹائمز نے 31؍ مئی 2019ء کو اتراکھنڈ کے بارہویں کے امتحانات میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کے بارے میں ایک رپورٹ دی اخبار کے مطابق اتراکھنڈ اسٹیٹ کے 12 ویں کے امتحان میں ستاکشی تیواری نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی۔ اس لڑکی نے میاتھس کے مضمون میں 99 فیصد مارکس اور کیمسٹری و فزکس میں صد فیصد مارکس حاصل کیے اور سب سے خاص بات یہ کہ اس لڑکی نے اپنے اسکول کی پڑھائی کے علاوہ کہیں سے بھی ٹیوشن نہیں لیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق ستاکشی کو جب بھی کسی مضمون میں مشکل ہوتی تو وہ اپنے اسکول کے ٹیچرس سے پوچھا کرتی تھی اور ہاں اسکول کی بات آئی تو یاد آیا کہ ستاکشی جس اسکول میں پڑھتی تھی وہ اس کے گھر سے 40 کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔ یعنی اس 16 سالہ لڑکی کو ہر روز اسکول آنے جانے 80 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرنا پڑتا تھا۔ ستاکشی تیواری نے اخبار کو بتلایا کہ اپنے آپ کو ہمیشہ متحرک رکھنے کے لیے اس نے اپنی تعلیمی زندگی کے مقصد کو بالکل واضح رکھا اور اسی طرح اپنے لیے توانائی حاصل کرتی رہی۔ تیواری کو روزانہ صبح جلدی اٹھنا اور رات میں پڑھائی کر کے دیر سے سونا پڑتا تھا۔
قارئین ستاکشی تیواری کی سب سے اہم بات جو اخبار نے لکھا ہے کہ ستاکشی کو جلد بھول جانے کی کمزوری تھی لیکن اس لڑکی نے اپنی اس کمزوری کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ اس نے بتلایا کہ میں چونکہ جلد بھول جایا کرتی تھی تو اس کے لیے میں ہر Subject کو بار بار revise کرتی تھی تاکہ مجھے ہر چیز یاد رہے۔

اپنے اسکول کے ٹیچرس کے متعلق تیواری نے بتلایا کہ وہ لوگ ہمیشہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے اور ترغیب دلاتے تھے کہ اس کو پورے اسکول میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنا ہے۔ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تیواری نے بتلایا کہ اس نے پوری ریاست میںٹاپ پوزیشن حاصل کی تو سب سے زیادہ اس کے ٹیچرس خوش تھے۔ ستاکشی تیواری کو گھر پر اپنی پڑھائی بھی خود ہی کرنی پڑتی تھی کیونکہ اس کے ماں باپ دونوں نوکری کرتے ہیں۔ ستاکشی تیواری کے والد انوپ تیواری نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ ان کی لڑکی بہت محنت کرتی ہے۔ گیارہویں جماعت سے ہی اس نے فائنل امتحان کی تیاری شروع کردی تھی۔ اس نے اپنی اسٹڈیز کے لیے باضابطہ طور پر ایک کیلنڈر بنایا تھا۔ جس میں ہر سبجیکٹ کا نام درج ہوتا تھا کہ کس دن کونسا مضمون پڑھنا ہے اورکس مضمون کو Revise کرنا ہے۔
ڈسپلن تعلیم میں ہو یا زندگی میں کامیابی کا ضامن ہوتا ہے اور اکثر کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے دوران بچے خراب محبت کی وجہ سے پریشانی اٹھاتے ہیں اور تعلیم کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور جب تعلیم کے دوران بچوں کو اچھی Company اور اچھے دوست ملتے ہیں تو کامیابی کا سفر اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔
15؍ جون 2019 کو خبر رساں ادارے پی ٹی آئی (PTI) نے JEE ایڈوانسڈ 2019ء میں سکنڈ اور تھرڈ رینک حاصل کرنے والے دو طلبہ کے متعلق ایک دلچسپ اسٹوری شائع کی۔ JEE ایڈوانسڈ 2019ء امتحان کے نتائج کا 14؍ جون 2019کو اعلان کردیا گیا۔ اس امتحان میں ہیمانشو گورو سنگھ اور ارچت ببنا نے بالترتیب دوسرا اور تیسرا رینک حاصل کیا اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں بہت اچھے دوست ہیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق ہیمانشو نے بتلایا کہ وہ اور ارچت پچھلے دیڑھ برسوں کے دوران بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔ یہ دونوں اگرچہ الگ الگ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر دونوں کا کوچنگ انسٹیٹیوٹ ایک ہی تھا۔ حالانکہ دونوں کے بیاجس ایک دوسرے سے الگ الگ تھے لیکن ان دونوں کی دوستی تعلیم کے حوالے سے تھی۔ ہیمانشو نے بتلایا کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بہت ساری چیزیں سیکھیں۔ ہم لوگ آپس میں نوٹس (Notes) کا تبادلہ کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو Ideas دیا کرتے تھے اور آپس میں گائیڈ بھی کرلیا کرتے تھے۔ ہیمانشو سنگھ کا تعلق گورکھپور سے ہے اور ارچت ببنا دہلی سے تعلق رکھتا ہے۔
ہیمانشو نے امتحان کے بعد ہی گھر پر جوابات چیک کرلیے تھے۔ اسے امید تھی کہ وہ ٹاپ تھری میں جگہ بنالے گا۔ اس نے پی ٹی آئی کو بتلایا کہ پچھلے برس کے مقابل اس برس JEE Advanced کا پرچہ مشکل تھا۔ لیکن میں نے مسلسل محنت کی تھی اور اپنا وقت دو ہی چیزوں میں بانٹ رکھا تھا۔ ایک پڑھائی، دوسرا پڑھائی کے دوران پیدا ہونے والے ٹینشن کو دور کرنا۔ پہلے تو میں پڑھائی کرتا تھا اور پھر اپنے ذہنی دبائو کو کم کرنے کے لیے اپنے والدین سے اور چھوٹے بھائی سے بات کرتا اور بیاڈمنٹن کھیلا کرتا تھا۔ بارہویں جماعت میں ہیمانشو نے دہلی زون میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی تھی۔
ہیمانشو نے بتلایا کہ وہ آئی آئی ٹی ممبئی سے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔
کیا ہیمانشو بھی سوشل میڈیا سے دور تھا اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ ہیمانشو کے مطابق JEEایڈوانسڈ کا امتحان لکھ دینے کے بعد ہی اس نے فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنا اکائونٹ کھولا۔
14؍ جون2019ء کو JEE ایڈوانسڈامتحان کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں 1,61,319 امیدواروں نے شرکت کی جن میں سے صرف 38,705 نے کامیابی درج کی اور ان میں سے ہیمانشو اور ارچت نے دوسرا اور تیسرا رینک حاصل کیا۔

راج کمار گپتا پٹنہ بہار میں ایک بیکری چلاتے ہیں۔ ان کے لڑکے پون کمار گپتا نے JEE ایڈوانسڈ 2019ء میں پوری ریاست بہار میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ پون کا AIR (259) تھا۔ پون نے اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ مجھے اپنی ذات پر بھروسہ تھا۔ مجھے یہ احساس تھا کہ میں کامیابی حاصل کرسکتا ہوں اور میرا بھروسہ یقین میں بدل گیا۔ میں اپنے ٹیچرز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس امتحان کے لیے تیاری کروائی۔
قارئین صرف ڈاکٹرز کا بیٹا ہی کامیابی حاصل نہیں کرتا بلکہ بیکری والے کا بیٹا بھی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ محنت کرے۔ ہیمنت کھنڈیلیا کا تعلق کولکتہ سے ہے۔ ہیمنت نے NEET 2019 کے امتحان میں آل انڈیا رینک 11 حاصل کیا اور خاص بات یہ ہے کہ ہیمنت نے پہلی مرتبہ میں ہی یہ کامیابی حاصل کی۔ 14 لاکھ طلبہ نے NEET کا امتحان لکھا اور ہیمنت نے اس امتحان میں گیارہویں پوزیشن حاصل کی۔ وہ کہتا ہے کہ ایک طالب علم کے لیے ریگولر پڑھائی کرنے کے لیے اس کا اپنا ٹائم ٹیبل ہونا چاہیے اور خاص کر ایک طالب علم کو موبائل فون اور سوشل میڈیا سے بچ کر رہنا ضروری ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی طالب علم کے لیے یہ دو چیزیں مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ کولکتہ کے سائوتھ پوائنٹ ہائی اسکول کے پاس آئوٹ اس طالب علم نے دہلی کے مولانا آزاد میڈیکل کالج میں داخلہ کے لیے فارم داخل کردیا ہے۔ (بشکریہ edexlive.com)
قارئین والدین اور سرپرستوں کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں سوشیل میڈیا اور اسمارٹ فونس سے انہیں دور رکھنا ہوگا کیونکہ آج کے دور میں کامیابی کے لیے یہ پہلی درکار ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری اولاد کو صراط مستقیم پر چلائے اور ہر طرح کے شرور سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com