آبادی کے مطابق نمائندگی فراہم کرنے کا نعرہ ادھورا، اقلیتوں سے ارباب اقتدار کی سردمہری، مسلمانوں میں بے چینی کی کیفیت
حیدرآباد 12 جون (سیاست نیوز) تلنگانہ میں کانگریس حکومت کے اقتدار کو 17 ماہ مکمل ہوگئے اور اِس مدت کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو اپنے مسائل کے حل کیلئے عہدیداروں پر انحصار کرنا پڑا کیوں کہ اقلیتی بہبود کا کوئی وزیر موجود نہیں تھا اور اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر ریونت ریڈی کے پاس تھا۔ عام مسلمان تو کجا کانگریس سے وابستہ سینئر قائدین کو بھی چیف منسٹر تک رسائی حاصل نہیں تھی جس کے نتیجہ میں مسلم مسائل کو پیش کرنے میں ناکامی ہوئی۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو تشکیل حکومت کے بعد تیقن دیا گیا تھا کہ چیف منسٹر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے لئے بہ آسانی دستیاب رہیں گے اور اُنھوں نے اقلیتی بہبود کا قلمدان اپنے پاس اِسی لئے رکھا ہے تاکہ مسائل کو حل کرنے میں سہولت ہو۔ حکومت کے 17 ماہ مکمل ہوگئے لیکن کانگریس کی تائید کرنے والی مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو شاید ایک مرتبہ بھی چیف منسٹر سے ملاقات کا موقع نہیں ملا۔ اب جبکہ کابینہ میں 3 نئے وزراء کو شامل کیا گیا، مسلمانوں کو قوی اُمید تھی کہ اقلیتی بہبود کے وزیر کا طویل انتظار ختم ہوجائے گا۔ انتظار تو ختم ضرور ہوا لیکن دوبارہ مایوسی ہاتھ لگی کیوں کہ کسی مسلم وزیر کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا اور ایک غیر اقلیتی وزیر کو اقلیتی بہبود کی ذمہ داری دی گئی۔ یوں تو بی آر ایس دور حکومت میں بھی کے ایشور وزیر اقلیتی بہبود کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں لیکن اُس وقت کے چیف منسٹر کے سی آر کے پاس مسلم قائدین اور جماعتوں کی رسائی کی گنجائش تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریونت ریڈی حکومت میں جس وزیر کو اقلیتی بہبود کا قلمدان دیا گیا وہ اُسی اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی نمائندگی کے ایشور کرتے رہے۔ دھرماپوری اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھنے والے کے ایشور کو شکست دے کر لکشمن کمار اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ یہ دونوں ایس سی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ محض اتفاق ہے یا پھر کانگریس حکومت کی حکمت عملی کہ لکشمن کو وہی قلمدان دیئے گئے جو اُن کے پیشرو کے ایشور کے پاس تھے۔ ایس سی، ایس ٹی اور اقلیتی بہبود کا قلمدان حکومت کی تبدیلی کے باوجود دھرماپوری اسمبلی حلقہ کے حق میں آیا ہے۔ اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر کی جانب سے ریاستی وزیر کو منتقل کئے جانے سے موجودہ صورتحال میں تبدیلی کے کوئی خاص امکانات نہیں ہیں۔ اقلیتی مسائل کی یکسوئی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ وزیر اقلیتی اُمور سے بخوبی واقف ہو۔ دھرماپوری اسمبلی حلقہ میں اقلیتوں کی آبادی انتہائی کم ہے لہذا پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بننے والے لکشمن کمار کو اقلیتوں اور اُن کے مسائل سے شاید ہی آگہی ہوگی۔ لکشمن کمار پہلی مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اُنھیں وزارت میں شامل کرلیا گیا لہذا تجربہ کی کمی بھی اقلیتی مسائل کی یکسوئی میں اہم رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اِس سے بہتر تو یہی تھا کہ چیف منسٹر یہ قلمدان خود اپنے پاس رکھتے یا پھر کسی ایسے تجربہ کار وزیر کو قلمدان کی ذمہ داری دی جاتی جو اقلیتی مسائل سے بخوبی واقف ہو۔ کابینہ میں مسلم اقلیت کی عدم نمائندگی مسلمانوں میں بے چینی میں روز افزوں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم اقلیت میں قابل اور اہل قائدین کی کمی ہے۔ بھلے ہی اسمبلی کے لئے کوئی مسلمان منتخب نہیں ہوسکا لیکن قانون ساز کونسل میں کانگریس پارٹی سے جناب عامر علی خاں کی صورت میں مسلم نمائندگی موجود ہے۔ شمولیت کی گنجائش کے باوجود مسلمانوں کو نظرانداز کرنا باعث حیرت ہے۔ ہائی کمان سے لے کر چیف منسٹر تک ہر کسی نے اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کی تائید سے تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار حاصل ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کی تائید اقتدار کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتی ہے تو پھر اُنھیں کابینہ میں نمائندگی کیوں نہیں؟ تلنگانہ کے مسلمان 17 مہینے تک مسلم وزیر کا انتظار کرتے رہے لیکن غیر اقلیتی وزیر اور وہ بھی ایک ناتجربہ کار قائد کو اقلیتی بہبود کی ذمہ داری سونپنا دوسرے معنوں میں ارباب اقتدار کی مسلمانوں سے سردمہری کو ثابت کرتا ہے۔ طبقاتی سروے کے مطابق تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی 12.56 فیصد ہے جن میں 10.08 فیصد پسماندہ مسلمان ہیں جبکہ 2.48 فیصد خوشحال طبقہ ہے۔ مسلمانوں کی مجموعی آبادی 4457012 ریکارڈ کی گئی ہے۔ درج فہرست اقوام (ایس سی) طبقہ کی آبادی 6184319 جبکہ ایس ٹی طبقہ کی آبادی 3705929 ہے لیکن مذکورہ دونوں طبقات کو کابینہ میں مؤثر نمائندگی دی گئی جبکہ راہول گاندھی نے آبادی کے اعتبار سے نمائندگی کا جو وعدہ کیا تھا اُس پر عمل آوری تلنگانہ میں نہیں ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا احساس ہے کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلمان اپنے مسائل کیلئے کسی غیر مسلم وزیر کے بجائے خود کسی مسلم وزیر سے رجوع ہونے کے موقف میں ہوتے۔1