اَبانتیکا ھوش
عام انتخابات اب زیادہ دُور نہیں ہیں، حکمراں بی جے پی ہر حال میں ہیٹ ٹرک کرنے کی خواہاں ہے اور اسی کیلئے وہ جان توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ بی جے پی کا کوئی ترقیاتی ایجنڈہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ انتخابات میں کامیابی پر کامیابی حاصل کرتی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ حالیہ دنوں میں کانگریس ترجمانوں نے اسے فاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک بات ضرور ہے کہ ملک میں عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس کا اثر ان کی زندگیوں اور گھروں پر مرتب ہونے لگا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں کانگریس کی قیادت میں متحد ہوتی ہیں تو یہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ ملک اور عوام کیلئے بہتر ہوگا۔ حال ہی میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کا ایک اعلان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی دوسری اپوزیشن جماعتوں سے اتحاد کیلئے بات چیت کررہی ہے اور کانگریس ہی اس اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرے گی، جو 2024ء میں اقتدار پر آئے گا۔ کانگریس اور اپوزیشن کیلئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ملکارجن کھرگے کا یہ بیان ایک ایسے وقت منظر عام پر آیا جبکہ چند دن قبل بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے جو وہاں اتحادی حکومت کی قیادت کرتے ہیں اور کانگریس جس اتحاد کا حصہ ہے کانگریس کو مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرے۔ نتیش کمار نے 25 فروری کو ریاست بہار میں مہا گٹھ بندھن اجلاس کا اہتمام کیا اور اسی وقت کانگریس رائے پور میں اپنا پلینری اجلاس منعقد کررہی تھی۔ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے بی جے پی کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں مرکز میں کانگریس اتحادی حکومت کی قیادت کرے گی۔ کانگریس تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے اور اس بات پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں کیسے کامیابی حاصل کی جائے۔ کھرگے کا دعویٰ ہے کہ عام انتخابات 2024ء میں بی جے پی اپنی اکثریت کھو دے گی اور کانگریس کی زیرقیادت اپوزیشن اتحاد کو کامیابی ملے گی۔ واضح رہے کہ ناگالینڈ، تریپورہ اور میگھالیہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے بھی اپوزیشن دعوے کررہی ہے لیکن اوپینین پولس اور سروے وغیرہ میں تین ریاستوں میں کم از کم دو میں بی جے پی کو اقتدار ملنے کی پیش قیاسی کی جارہی ہے تاہم سروے غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ناگالینڈ کی 60 رکنی اسمبلی کیلئے کانگریس نے 23 امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ 27 فروری کو ناگالینڈ میں رائے دہی کا انعقاد عمل میں آیا۔ 60 میں سے ایک امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوا۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ فی الوقت ناگالینڈ اسمبلی میں کانگریس کا ایک ایم ایل اے بھی نہیں ہے۔ 2018ء کے اسمبلی انتخابات میں اس کا ووٹ شیئر گھٹ کر صرف 2% تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ملکارجن کھرگے نے ناگالینڈ میں بی جے پی کو چیلنج بھی کیا کہ وہ اس ریاست میں 100 کیلومیٹر پیدل یاترا کا اہتمام کرکے دکھائے جبکہ راہول گاندھی نے 3,700 کلومیٹر فاصلے طئے کرنے کیلئے بھارت جوڑو یاترا نکالی اور بتادیا کہ وہ عوام کو پریشانیوں و مشکلات سے بچانے اپنا سکون چین سب کچھ قربان کرسکتے ہیں۔ کھرگے نے ناگالینڈ کی انتخابی مہم میں وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی دوست اور صنعت کار گوتم اڈانی کی کمپنیوں کے خلاف ہنڈن برگ رپورٹ کے بھی حوالے دیتے ہوئے عوام کو بتایا کہ کانگریس اس معاملے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ ہنڈن برگ نے اڈانی اور ان کی کمپنیوں کے خلاف اکاؤنٹنگ فراڈ اسٹاک مارکٹ میں اپنے شیئرس کی قدر و قیمت میں ہیرا پھیری اور کئی ایک بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کئے جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اڈانی کی تباہی کا آغاز ہوگیا۔ ان کی نقد دولت 122 ارب ڈالرس سے گھٹ کر 33 ارب ڈالرس ہوگئی۔ کانگریس نے ناگالینڈ کے Diphuhar میں اپنے جلسہ کا آغاز عیسائی دعا کے ساتھ کیا۔ مردم شماری 2011ء کے مطابق ریاست میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جہاں کی 90% آبادی عیسائی ہے۔ کانگریس کے مقامی صدر نے ببانگ دہل کہا کہ مودی حکومت میں عیسائیوں پر اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں اور ایسی ریاست جس میں 95% آبادی عیسائی ہے، ایک ایسی جماعت کو ووٹ دینے کی ضرورت نہیں جو عیسائیوں پر ظلم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اگر ناگالینڈ میں حقیقی جمہوریت ہے تو پھر کانگریس کے23 امیدواروں میں سے کوئی بھی ناکام نہیں ہوگا۔ جہاں تک ناگالینڈ کا سوال ہے، وہاں سے جو رپورٹس موصول ہورہی ہیں، ان کے مطابق بی جے پی اور NDPP کو اقتدار ملنے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں۔