کانگریس میں گھر واپسی کا سیلاب، بی جے پی کے 30 اہم قائدین شمولیت کیلئے تیار

,

   

راجگوپال ریڈی ، جی ویویک، وجئے شانتی اور وشویشور ریڈی شامل، کانگریس کو تلنگانہ میں برتری کے بعد بی جے پی میں ہلچل

حیدرآباد۔/26 ستمبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل کانگریس کے حق میں گھر واپسی کے سیلاب نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور مجوزہ انتخابات میں سہ رخی مقابلہ کے بجائے بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کی ٹکر ہوسکتی ہے۔ کرناٹک کے اسمبلی چناؤ تک بھی تلنگانہ میں بی جے پی مستحکم دکھائی دے رہی تھی اور بی آر ایس اور کانگریس کے کئی قائدین نے پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے تلنگانہ میں اقتدار کا خواب دیکھا تھا۔ کرناٹک چناؤ کے بعد صورتحال کانگریس کے حق میں بتدریج تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں بی جے پی انتخابی ماحول میں کافی پچھڑ چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے حیدرآباد میں اجلاس اور تکوگوڑہ میں کامیاب جلسہ عام نے تلنگانہ کے سیاسی ماحول کو یکایک تبدیل کردیا اور برسر اقتدار بی آر ایس خود بھی اپنے ناراض قائدین کو کانگریس میں شمولیت سے روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ بی آر ایس اور بی جے پی سے کانگریس میں شمولیت کی ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بی جے پی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 30 قائدین گھرواپسی کی تیاری کررہے ہیں اور جلد ہی یہ اہم قائدین کانگریس میں شمولیت اختیار کریں گے۔ مذکورہ قائدین کے بی جے پی چھوڑتے ہی تلنگانہ میں بی جے پی کا موقف کافی کمزور ہوجائے گا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل کانگریس سے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق رکن پارلیمنٹ کومٹ ریڈی راجگوپال ریڈی گھر واپسی کرنے والے قائدین کی قیادت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں کے سی آر کو شکست دینے کی اہل قیادت بی جے پی میں نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً 30 قائدین ایسے ہیں جو ایسی پارٹی کی تائید کے حق میں ہیں جو کے سی آر کو شکست دے سکیں۔ راجگوپال ریڈی جنہیں ضمنی چناؤ میں بی جے پی کے ٹکٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، بنڈی سنجے کی تبدیلی اور کشن ریڈی کو صدارت کی ذمہ داری دیئے جانے کے بعد سے خود کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی موجودہ صورتحال سے بیشتر قائدین مایوس ہیں اور ہم نے کے سی آر کو شکست دینے کے واحد مقصد سے شمولیت اختیار کی تھی۔ بی جے پی عوام میں اپنی گرفت بتدریج کھوچکی ہے۔ کانگریس میں شمولیت کے بارے میں غور کرنے والے قائدین میں سابق ارکان پارلیمنٹ وجئے شانتی، جی ویویک وینکٹ سوامی اور کونڈا وشویشور ریڈی شامل ہیں۔ مزید 25 بی جے پی قائدین ایسے ہیں جو پارٹی میں برقراری کے بارے میں غیر یقینی حالات کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق رکن پارلیمنٹ سی ایچ سریش ریڈی بھی بی جے پی سے علحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ ناراض قائدین کا کہنا ہے کہ شراب اسکام میں مرکز کی جانب سے بی آر ایس رکن کونسل کویتا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کا پارٹی پر منفی اثر پڑا ہے۔ بی آر ایس سے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے ایٹالہ راجندر کو پارٹی نے حال ہی میں الیکشن کمیٹی کا صدرنشین مقرر کیا گیا لیکن وہ پارٹی قیادت کی تبدیلی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بی آر ایس حکومت اور چیف منسٹر کے سی آر کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کرنے والے بنڈی سنجے کو اچانک تبدیل کردیا گیا جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ دونوں پارٹیوں میں خفیہ مفاہمت ہے اور کشن ریڈی کے تقرر کے پس پردہ چیف منسٹر کے سی آر کا ہاتھ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس میں شمولیت کے سلسلہ میں مذکورہ قائدین کانگریس قیادت سے ربط میں ہیں۔ قائدین کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل تک بھی بی جے پی کے ساتھ مخالف حکومت 65 فیصد ووٹ تھے جو اب کانگریس کو منتقل ہوچکے ہیں اور ریاست میں کانگریس کو سبقت حاصل ہے۔ اطلاعات کے مطابق کانگریس ہائی کمان نے بی جے پی سے گھر واپسی کرنے والے قائدین کو نشستوں کے بارے میں کوئی بھی تیقن دینے سے انکار کیا ہے۔ بھونگیر کے رکن پارلیمنٹ کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی اپنے بھائی راجگوپال ریڈی کی واپسی میں سنجیدہ ہیں اور ہائی کمان سے گرین سگنل ملنے کے بعد سابق ارکان پارلیمنٹ اور دیگر قائدین کانگریس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلیں گے۔