سلمان خورشید
کووڈ ۔ 19 کے خلاف ہماری لڑائی ایک امکان نہیں ہے یہ ایک لازمی چیز ہے جس میں حصول مقصد کے لئے تمام انسانوں میں مکمل اتحاد اور مکمل بھروسہ درکار ہے۔ ہم کیسے اس خطرہ (کورونا وائرس وباء) کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف موت و زیست کا فرق پیدا ہوگا بلکہ آنے والی نسلوں کو کامیاب بنانے میں ہمارے کردار سے بھی وہ (نئی نسل) واقف ہوگی۔
ایک ایسے وقت جبکہ ہم کورونا وائرس کے ایک سنگین بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ بعض لوگوں کو اسے مسلسل فرقہ واریت کا موڑ دیتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حالانکہ ہم سب کے لئے بہت نازک و تاریک وقت ہے کچھ لوگوں کو اسے بھی فرقہ پرستانہ رنگ دیتے ہوئے دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے اور کوئی بھی ذی حس انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ آیا ہم نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
آج نفرت پھیلانے والے کچھ بھی سوچ سکتے ہیں وہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہم اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ اپنے مقاصد حاصل کرتے جارہے ہیں۔ انہیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ان کی حرکات اور نفرت پھیلانے کا عمل سارے عالم میں نوٹ کیا جارہا ہے۔ کہیں بھی عوام قدامت پسند ہوسکتے ہیں لیکن شمولیای جمہوریت کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا گیا۔
مقبولیت یا پاپولزم ہوسکتا ہے ملکوں کے لئے ایک ایسی قیمت چکانے کا باعث بن سکتی ہے جس کی انہوں نے توقع نہیں کی تھی، لیکن دنیا میں کہیں بھی تازہ فیصلے تہذیبی اقدار کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنیں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہم اپنے فراخدلانہ نظریات و روایات سے محروم ہونے کی کگار پر ہیں۔ جہاں ہم نفرت کے ایک بے عیب گمنام سمندر کی طرف بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ ایسا موقع ہے جہاں نفرت نے اپنا بھیس بدل لیا ہے۔ کبھی خود کو ظلم کا شکار، اقلیتوں کی خوشامدی اور خود مرکوز اکثریت کا تصور میں ڈھال لیتی ہیں۔
برسوں سے مبینہ فرقہ وارانہ اثرات کے باعث مشمولیاتی کمیونٹی نمائندگی کے خواہاں لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ مسلم قائدین سے کہا جارہا ہے کہ اس طرح کی صورتحال پر تبصرہ کریں لوگوں اور تنظیموں کی حقیقی یا تصوری سرکشی کی مذمت کریں۔ اور حسن اتفاق سے یہ لوگ اور تنظیمیں ان کی اپنی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس معاملہ میں تبلیغی جماعت ایک Exclreme case ہے۔ اس کی پر اسرار Credentials اور کردار کے بارے میں بے شک اس کے مخالفین نے منفی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی پرجوش کوشش کی اس پر کوتاہ نظری اور غیر حساسیت کے الزامات عائد کئے۔ بادی النظر میں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اس پر مجرمانہ ذمہ داری عائد کرنا ناممکن ہے۔ جرم ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے ارادوں کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر غلط ارادہ و نیت کے ساتھ کوئی کام ہوتا ہے تو وہ اصل میں جرم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یقینا ایک متاثرہ شخص کئی لوگوں کو متاثر کرتا ہے لیکن تبلیغی جماعت کے معاملہ میں ہم جو اعداد و شمار سن رہے ہیں وہ یاتو بڑھا چڑھاکر پیش کئے گئے یا پھر جماعت کے ارکان کی حراستی جانچ کا نتیجہ ہے۔ جیسا ہوسکتا ہے ویسا رہنے دیں۔ وہ لوگ یقینا ایک طوفان میں کود پڑے ہیں ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی خود کی یا مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کی۔
جماعت پر کورونا وائرس کی ذمہ داری عائد کرنے والے یا اسے وائرس کے پھیلاو کا ذمہ دار قرار دینے والے اکثر مبصرین ڈیفنس کالونی کے ایک گارڈ سے متعلق غلط الزامات کی وضاحت پیش کریں گے اور یہ مبصرین دہلی کے کسی مقام کے سبزی فروشوں یا COVID-19 کے نام پر ہندوستان میں پیش آئے ہجومی تشدد کے المناک واقعات کی توضیح نہیں کریں گے۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ٹھیلہ بنڈیوں پر سبزی و میوے فروخت کرنے والوں کو صرف اس بنیاد پر سڑکوں میں داخل ہونے کے خلاف انتباہ دیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟
بی جے پی کی فی الوقت اپنے اکثریتی ایجنڈہ کے ساتھ بڑے آرام سے رہنے کی اچھی وجہ ہے اور یقین کیجئے یہ انتخابات میں اس کی مسلسل کامیابیوں یا پے درپہ کامیابیوں کی ضمانت ہے۔ پارٹی رہنما اب بھی اس مسئلہ پر غلط ہوسکتے ہیں۔ کم از کم کئی ریاستوں میں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کو اترپردیش میں محفوظ پناہ گاہ حاصل ہوگئی ہے جہاں بی ایس پی۔ ایس پی اتحاد نے بی جے پی کو ریاست سونپی تھی۔ کانگریس کا صفایا کرتے ہوئے خود کو لوک سبھا میں اپنی بے معنی اور معمولی موجودگی کو یقینی بنالیا۔ یعنی لوک سبھا انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کو کانگریس کے صفائے کے صلہ میں حقیر سا فائدہ ہوا۔
کانگریس کچھ عرصہ سے خراب مظاہرہ کررہی ہے لیکن یہ پوری طرح بی جے پی کے نقطہ عروج پر پہنچنے کے باعث نہیں ہے بلکہ ہمارے زوال کا آغاز 1980 کے فسادات اور ایودھیا مسئلہ کے ساتھ ہوا۔ بی ایس پی اور ایس پی نے بڑی بے رحمی سے کانگریس کے روایتی ووٹوں پر اپنے پنجے گاڑے اور اب تشدد کے تازے دور یا واقعات نے جو ریاست کی سرپرستی یا اسپانسرشپ اور ایودھیا کی چھاپ رکھتے ہیں بی جے پی کے لئے موافق حالات پیدا کردیئے۔ انہوں نے بڑی خاموشی سے اپنا کام کیا۔ جیسا کہ دہلی میں ہوا۔ اروند کجریوال نے خود کو شاہین باغ اور جے این یو طلبہ سے دور رکھا اور لاشعوری طور پر تبلیغی جماعت کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جماعت کو گہرے سیاہ رنگ سے رنگ دیا۔ کانگریسی رہنما اور ورکرس جو مسلمان ہیں صرف مسلم لیڈروں کی حیثیت سے اپنی شبیہہ بنانے کی راہ کا انتخاب نہیں کیا ان لیڈروں اور ورکروں سے یہ توقع کی گئی کہ بعض مسلمانوں کی بے راہ روی کے بارے میں عملاً اور وہ کچھ نہ کچھ بولیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ عصمت ریزی اور قتل سے متعلق ہر رپورٹس بڑی بے چینی اور اس امید سے پڑھی جاتی ہیکہ قصوروار کوئی مسلمان نہ نکلے۔ کسی مسلم پر ہر حملہ اور لیچنگ کے موقع پر وہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے دوست یا ساتھی کی طرف دیکھتے جو ان حملوں اور ہجومی تشدد کے واقعات کی مذمت کرے۔ اس کے خلاف اپنی زبان کھولے تاکہ ان واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے کیونکہ اس طرح کے واقعات پر جب کوئی مسلم لیڈر آواز اٹھاتا ہے تو اسے فوری فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے۔ جب ہمارے اپنے پارٹی رفقاء نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ایودھیا مندر کے حق میں دیئے جانے کا خیرمقدم کیا جبکہ ہم نے مندر کے لئے عدالت کی جانب سے مسجد کے لئے اراضی کی منظوری کی ستائش کرنے میں خفگی کا مظاہرہ کیا۔ عدالت نے یہ منظوری اس مقدمہ میں توازن پیدا کرنے کے لئے دی تھی۔
جس وقت طلاق ثلاثہ کو مستوجب سزا جرم قرار دیا گیا۔ ہم خاموش رہے جب کشمیر کو خصوصی موقف دینے والی دفعہ 370 منسوخ کی گئی۔ ہم نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں یہاں تک کہ بعض پارٹی کے نوجوان رفقاء تھے جو آرٹیکل 370 کی برخواستگی کے بارے میں بی جے پی کے خطوط پر خیالات ظاہر کئے
یکساں سیول کوڈ پر بھی ہم پریشان رہے۔ شاہین باغ ہمارے لئے توانائی بکھیرنے کی طرح ثابت ہوا لیکن اس نے ہمیں یہ دکھا دیا کہ ہم اپنی کمیونٹی کی آرزوں و تمناوں کے تئیں کتنے بے تعلق ہیں۔ اب جبکہ پولیس شاہین باغ احتجاج کے انتقام میں بغاوت اور دہشت گردی کے مبہم الزامات عائد کرنے میں مصروف ہے ہم ہنوزبے یار و مدد گار تماشہ بین بنے ہوئے ہیں۔
اکبر سے لیکر بہادر شاہ ظفر، بریگیڈیئر عثمان سے لیکر حوالدار عبدالحمید، مولانا آزاد سے ڈاکٹر ذاکر حسین، دلیپ کمار سے لیکر شاہ رخ خان، میناکماری سے شبانہ اعظمی، استاد بڑے غلام علی سے امجد خان، مرزا غالب سے لیکر جاوید اختر، نواب منصور علی خان پٹوڈی سے لے کر محمد اظہر الدین، سید ظہور قاسم سے ڈاکٹر عبدالکلام، چیف جسٹس آف انڈیا ہدایت اللہ سے لیکر چیف جسٹس جموں و کشمیر ہائی کورٹ بدر احمد وغیرہ ایسی شخصیتوں کا ختم نہ ہونے والا لشکر ہے جنہوں نے ہمیشہ ہندوستان کو پہلے رکھا۔
سیاست میں تبدیلیوں اور ابھرتے سماجی حالات نے ہم جیسے لوگوں کو عملاً غیر منتخب بنا دیا۔ فرخ آباد حلقہ جہاں سے مجھے دو مرتبہ منتخب کیا گیا۔ 2019 کے انتخابات میں مجھے وہ مقام دیا جہاں میرے حق میں ووٹ کا استعمال ووٹ ضائع کرنے کے مترادف رہا۔ موجودہ حالات میں کانگریس کا دوبارہ طاقتور ہونا ضروری ہے۔