کانگریس کو کھرگے جیسا قائد ہی چاہیے تھا سو مل گیا

   

ظفر آغا
وہ علامہ اقبال کا پروردگار سے شکوہ ’برق گرتی ہے تو مسلمانوں پر‘ اب ایک محاورہ ہو چکا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہی بات کچھ کانگریس پارٹی پر صادر آتی ہے۔ جی ہاں، اگر یوں کہیے کہ ’برق گرتی ہے تو کانگریس پر‘ تو کوئی غلط نہ ہوگا۔ ہندوستان کی آزادی کی معمار اور آزادی کے بعد پچاس برسوں سے زیادہ مدت تک ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی کانگریس پارٹی سے ہر وقت کوئی نہ کوئی شکوہ رہتا ہے۔ کانگریس پر ایک خاندان کا قبضہ ہے، کانگریس میں اندرونی جمہوریت کچل دی گئی ہے، اب پارٹی لیڈرشپ کو کچھ سوجھتا نہیں ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے شکوے شکایات میڈیا کو کانگریس پارتی سے رہتی ہیں۔ لیکن کسی کو اب یہ نہیں سوجھتا ہے کہ ابھی کانگریس پارٹی نے انتہائی جمہوری طرز پر ’سیکرٹ بیلٹ‘ کے ذریعہ نیا صدر چن لیا۔ سب واقف ہیں کہ ملکارجن کھرگے اور ششی تھرور کے درمیان پارٹی کی صدارت کے لیے کھلا مقابلہ ہوا۔ آخر کھرگے نے تھرور کو شکست دی اور وہ پارٹی صدر منتخب ہو گئے۔
یہ بات قابل ستائش اس لیے ہے کہ ایک کانگریس پارتی کے سوا غالباً کسی اور پارٹی میں صدارت کے لیے اس قسم کا جمہوری طرز عمل رائج نہیں ہے۔ کیا بی جے پی میں نڈا کو پارٹی صدر اس طرح چنا گیا تھا؟ اس سے قبل کیا امیت شاہ یا راجناتھ سنگھ کو پارٹی ممبران نے چنا تھا؟ جی نہیں، ان سب کو پارٹی اعلیٰ کمان نے سنگھ کی مرضی سے صدر نامزد کر دیا۔ یہی حال دیگر صوبائی پارٹیوں کا ہے۔ اکھلیش یادو اپنے والد آنجہانی ملائم سنگھ کی ایما پر بغیر کسی چناؤ سماجوادی پارٹی کے صدر بن گئے۔ ممتا کا یہی حال ہے۔ تلنگانہ میں کے سی آر ایسے ہی اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔ لیکن شکایت ہر کسی کو کانگریس پارٹی سے ہے۔ تو جناب کانگریس نے ابھی پچھلے ہفتے ملکارجن کھرگے کو باقاعدہ چن کر جمہوری طرز پر صدر چن کر یہ دکھا دیا کہ یہ جرآت بھی محض کانگریس پارٹی میں ہے، اور یاد دلا دوں 22 برس قبل سونیا گاندھی بھی اسی طرح چن کر پارٹی صدر بنی تھیں۔ ان کا مقابلہ اس وقت آنجہانی جتیندر پرساد سے تھا جو ہار گئے تھے اور سونیا گاندھی صدر کانگریس منتخب ہو گئی تھیں۔ لیکن اب بھی میڈیا کھرگے کے چناؤ میں مین میخ نکال رہا ہے۔
خیر، ملکارجن کھرگے اب کانگریس کے صدر ہیں اور پارٹی کی کمان اب ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک انتہائی غریب اور دلت خاندان سے تعلق رکھنے والے 80 برس کی عمر پر کھڑگے نیچے سے چل کر اب کانگریس کے اس اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن ان کو کانگریس کی کمان تب ملی ہے جب ہندوستان کی یہ پارٹی اپنے دور کے سب سے برے حالات سے گزر رہی ہے۔ پارٹی مرکزی اقتدار سے لگ بھگ دس برسوں سے باہر ہے۔ ادھر ریاستوں میں بھی کانگریس کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ پھر پارٹی گٹھ بندی کا بھی شکار ہے۔ پرانے بزرگوں کو نوجوانوں سے شکایت ہے تو نوجوان گروہ پارٹی کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ ادھر کانگریس کا مقابلہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی سے ہے۔ سیاسی حالات یہ ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں ملک میں مسلم منافرت کی بنا پر ہندوتوا نظریہ کی آندھی چل رہی ہے۔ یعنی کانگریس کی سیکولر سیاست بھی کھٹائی میں ہے۔ نوجوان ہی کیا، جس کو دیکھو یعنی عورت مرد سب ہی مودی بھکت ہیں۔
ایسے سنگین حالات میں ملکارجن کھرگے کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے لیے یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا سنگین چیلنج ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ اس چیلنج کو حل نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ ایک انتہائی تجربہ کار لیڈر ہیں۔ کرناٹک میں کئی بار ریاست کے وزیر رہے، پھر مرکز میں بھی وزارت کے عہدے پر فائز رہے۔ ابھی وہ راجیہ سبھا میں کانگریس کے لیڈر ہیں۔ ان کو سیاست کا گہرا علم و تجربہ ہے اور وہ ان حالات میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔کھرگے کا دوسرا چیلنج یہ ہے کہ وہ ملک میں بی جے پی مخالف سیکولر ووٹ بینک کو متحد کریں۔ ظاہر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب کہ ملک میں بی جے پی مخالف سیکولر پارٹیوں میں آپسی اتحاد ہو۔ یہ بھی ایک مرحلہ ہے جس کو کھرگے کو حل کرنا ہے۔ یہ کام بھی مشکل ہے کیونکہ مرکز میں کانگریس پارٹی کے کمزور پڑ جانے سے صوبائی لیڈران کے عزائم بلند ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔ آخر سونیا گاندھی نے کچھ ایسے ہی حالات میں کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کو متحد کر سنہ 2004 میں بی جے پی کو شکست دی تھی۔ اگر سونیا یہ کام کر سکتی ہیں، تو کھرگے وہی کام کیوں نہیں کر سکتے۔ اس لیے کھرگے کو اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں جلد از جلد صوبائی لیڈران سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔
تیسری اہم بات جس کا خیال کھرگے کو کرنا ہوگا وہ یہ ہے کہ کوئی کچھ کہے، لیکن ابھی بھی گاندھی خاندان کانگریس کا پبلک فیس ہے۔ کانگریس چناؤ بغیر گاندھی خاندان کے تعاون کے نہیں جیت سکتی ہے۔ اس بات کا احساس بذات خود کھرگے کو ہے۔ انھوں نے چناؤ سے قبل اور بعد میں بھی یہ کہا ہے کہ وہ سونیا اور راہل گاندھی کے رائے مشورہ سے ہی کام کریں گے۔ یہی کانگریس کے حق میں بھی ہے۔حالات مشکل ضرور ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ان پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔ پارٹی اور پارٹی کے باہر دونوں جگہوں پر کھڑگے کو اعتماد بنانا ہوگا۔ مثبت امر یہ ہے کہ کھڑگے اس کے لیے تیار ہیں۔ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں کانگریس کو کھرگے جیسا لیڈر چاہیے تھا، سو اس کو مل گیا۔ یہ کانگریس اور کھرگے دونوں کی خوش قسمتی ہے۔